امریکہ بھر میں فلوریڈا کی ایک عدالت کے فیصلے کے خلاف زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔
اِس عدالت کی جُیوری نےایک سفید فام حملہ آور، جارج زِمرمان کو، جس نے 17 سالہ سیاہ فام لڑکے ٹرے وان مارٹِن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، برّیُ الذمّہ قرار دیا اور عدالت نے زِمرمان کو آزاد کر دیا۔
اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ فلویڈا کی ریاست اور پُورے امریکہ میں احتجاجی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور اُنہوں نے زِمرمان کو بے قصُور قرار دینے کے فیصلے کو بے انصافی سے تعبیر کیا۔ اُن کا اصرار تھا کہ ایسے نِظام کو بدلنے کی ضرورت ہے جِس میں کسی محلّے کا ایک خود ساختہ مسلّح محافظ ایک نِہتّے سیاہ فام جوان کے تعاقب میں محض اس شُبہے کی بنیاد پر روانہ ہوا کہ وُہ کسی کام نہیں ہے اور پھر بجائے اُسے اپنے حال پر چھوڑنے کے اُسے جان ہی سے مار دے۔
یہاں واشنگٹن میں، مظاہرین نے مکّے تان کر احتجاج کیا۔ اُن کے کتبوں پر تحریر تھا ’سیاہ فاموں کو مجرم مت بناؤ‘، اور یہ کہ ’اِس ملک میں صرف سفید فام کی زندگی محفوظ ہے‘۔
امریکہ کی سب سے بڑی حقوق انسانی کی تنظیم نے محکمہٴانصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وُہ زِمرمان کے خلاف شہری آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے کا مقدّمہ دائر کرے، جِس نے وسطی فلوریڈا کے اس محلّے کی گلیوں میں اس نہتّے سیاہ فام لڑکے کا تعاقب کرکے اپنے بچاؤ کا بہانہ کرکے اُسے گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ سیاہ فاموں کی تنظیم این ڈبل اے سی پی نے درخواست بانٹنی شروع کی ہے جِس میں امریکہ کے اٹارنی جنرل سے مقدّمے کی پیروی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس درخواست پر اب تک لاکھوں افراد نے دستخط کئے ہیں۔
’نیو یارک ٹائمز ‘کہتا ہے کہ جارج زِمر مان کو ٹرے وان مارٹن کے قتل سے بری کرنےکے فیصلے کا ردّعمل گرجا گھروں میں ہونے والے خطبوں اور بازاروں میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں نکلا ہے۔ اور نسلی تفاوت، جرائم اور اس حقیقت پر ملک بھر میں مباحثہ شُروع ہو گیا ہے کہ فلوریڈا کے ایک رہائشی علاقے سے گُذرتے ہوئے ایک سیاہ فام کی نسلی تفریق کو ہوا دینے والے اس قتل سے امریکی نظامِ انصاف کیونکر عُہدہ برآ ہُوا۔
اخبار کہتا ہے کہ قانون سازوں، مذہبی رہنماؤں اور مظاہرین نے پارکوں اور چوراہوں میں جمع ہو کر، چھ رُکنی جُیوری کے اُس فیصلے کو، جس میں مسٹر مارٹن کی ہلاکت کے کسی بھی پہلُو کے لئے مسٹر زِمر مان کو ذمّہ دار نہیں ٹھیرایا گیا، اس نظام میں نسل پرستی کی آلائش کے ثبوت سے تعبیر کیا۔ اٹلانٹا کے بیپ ٹسٹ گرجا کے پادری ڈاکٹر وار ناک نے اپنے خطبے میں شکائت کی کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران سیاہ فاموں کو رسوائی کا ہدف بنایا گیاہے، جب کہ فلوریڈا کے چھوٹے قصبے میں جہاں مسٹر مارٹن کو ہلاک کیا گیا تھا، ریورنڈ ویلری ہُیوسٹن کی حمائت میں نعرے بھی بلند ہوئے اور اُن پر آوازے بھی کسے گئے، جب اپنے خطبے میں اُنہوں نے کہاکہ نسل پرستی اور بے انصافی نے امریکی فضا کو مسمُوم کر دیا ہے۔
اِس کے برعکس، مسٹر زمر مان، اُس کے حامیوں اور عدالت کے وکیلوں نے اِس بات کو ردّ کردیا کہ مسٹر مارٹن کی ہلاکت میں نسل پرستی کا کوئی دخل تھا۔اُن کا دعوایٰ تھا کہ مسٹر زمرمان نے اُس کا تعاقب نہیں کیا تھا اور یہ کہ جب اس 17 سالہ لڑکے نے اُس کے سر کو فُٹ پاتھ پر پٹخا تھا ، تو اس کے بعد ہی اس نے اپنے بچاؤ میں گولی چلائی تھی اور فلوریڈا ریاست کے قانوں میں شہریوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب انہیں یہ محسوس ہو کہ اُن کی جان کو خطرہ لاحق ہے، تو وُہ اپنے بچاؤ میں کوئی بھی غیر معمولی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔
اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ مسٹرزمر مان نےاپنےدفاع میں متّضاد بیان دئے تھے۔ استغاثہ نے اُس کے اس بیان کو چیلنج کیا تھا کہ مارٹن نےاُس کا سر بار بار کنکریٹ پر پٹخا تھا ، جب ا س نے اسے زمین پر گرایا تھا۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ اگر زمرمان کو اس نے دبوچ رکھا تھا تو اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اُس کا ہاتھ کمر سے بندھی ہوئی پستول تک پہنچے اور وہ گولی چلائےاور یہ کہ ناک اور سر کے پیچھے اس کے زخم معمولی نوعیت کے تھے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں کہا ہے کہ مسٹر مارٹن کی ہلاکت ایک سنگین بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ اِس میں نسل پرستی کی وباٴ ، کسی بھی فرد کو مجرم ٹھہرانے کی روائت اور بندوق سے متعلّق فلوریڈا کا وُہ قانون شامل ہیں، جس کے تحت ایک فرد کو کُھلی آزادی ہے کہ اگر اُسے کسی غیر قانونی نوعیت کا خطرہ محسوس ہو ، تو وُہ اپنے بچاؤ کے لئے طاقت کو بروئے کار لانے میں حق بجانب ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ ہُڈ والی سویٹ شرٹ پہنے اس لڑکے کی موت جس طرح لوگوں کی توجّہ کا مرکز بن گئی ہے، اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے صدر کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ اقلیّتوں کے والدین کو یہ تشویش ہے کہ اُن کی اولاد عدم تحفّظ کا شکار ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر زمرمان کے وکیل نے استغا ثہ کے موقف کو شرمناک قرار دیا ہے۔لیکن، اخبار کی نظر میں یہ موٴقف قابل قدر تھا کہ اس مقدمے کا فیصلہ کُھلی عدالت میں ہوا۔جُرم تو شک و شُبہ سے بالاتر ہو کر ثابت نہ ہوا ، اور مسٹر زمرمان اپنی زندگی وبارہ شروع کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن، اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُس رات اگر مسٹر زمر مان نے پولیس کا مشو رہ مان لیا ہوتا ، اور مارٹن کا تعاقب کرنے کی بجائے وُہ اپنی گاڑی میں بیٹھا رہتا، تو اِس کے بارے کسی کو معلوم بھی نہ ہوتا اور ٹرے وان مارٹن اتوار کی اُس رات کو بخیرو عافیت گھر پہنچ گیا ہوتا۔
اِس عدالت کی جُیوری نےایک سفید فام حملہ آور، جارج زِمرمان کو، جس نے 17 سالہ سیاہ فام لڑکے ٹرے وان مارٹِن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، برّیُ الذمّہ قرار دیا اور عدالت نے زِمرمان کو آزاد کر دیا۔
اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ فلویڈا کی ریاست اور پُورے امریکہ میں احتجاجی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور اُنہوں نے زِمرمان کو بے قصُور قرار دینے کے فیصلے کو بے انصافی سے تعبیر کیا۔ اُن کا اصرار تھا کہ ایسے نِظام کو بدلنے کی ضرورت ہے جِس میں کسی محلّے کا ایک خود ساختہ مسلّح محافظ ایک نِہتّے سیاہ فام جوان کے تعاقب میں محض اس شُبہے کی بنیاد پر روانہ ہوا کہ وُہ کسی کام نہیں ہے اور پھر بجائے اُسے اپنے حال پر چھوڑنے کے اُسے جان ہی سے مار دے۔
یہاں واشنگٹن میں، مظاہرین نے مکّے تان کر احتجاج کیا۔ اُن کے کتبوں پر تحریر تھا ’سیاہ فاموں کو مجرم مت بناؤ‘، اور یہ کہ ’اِس ملک میں صرف سفید فام کی زندگی محفوظ ہے‘۔
امریکہ کی سب سے بڑی حقوق انسانی کی تنظیم نے محکمہٴانصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وُہ زِمرمان کے خلاف شہری آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے کا مقدّمہ دائر کرے، جِس نے وسطی فلوریڈا کے اس محلّے کی گلیوں میں اس نہتّے سیاہ فام لڑکے کا تعاقب کرکے اپنے بچاؤ کا بہانہ کرکے اُسے گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ سیاہ فاموں کی تنظیم این ڈبل اے سی پی نے درخواست بانٹنی شروع کی ہے جِس میں امریکہ کے اٹارنی جنرل سے مقدّمے کی پیروی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس درخواست پر اب تک لاکھوں افراد نے دستخط کئے ہیں۔
’نیو یارک ٹائمز ‘کہتا ہے کہ جارج زِمر مان کو ٹرے وان مارٹن کے قتل سے بری کرنےکے فیصلے کا ردّعمل گرجا گھروں میں ہونے والے خطبوں اور بازاروں میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں نکلا ہے۔ اور نسلی تفاوت، جرائم اور اس حقیقت پر ملک بھر میں مباحثہ شُروع ہو گیا ہے کہ فلوریڈا کے ایک رہائشی علاقے سے گُذرتے ہوئے ایک سیاہ فام کی نسلی تفریق کو ہوا دینے والے اس قتل سے امریکی نظامِ انصاف کیونکر عُہدہ برآ ہُوا۔
اخبار کہتا ہے کہ قانون سازوں، مذہبی رہنماؤں اور مظاہرین نے پارکوں اور چوراہوں میں جمع ہو کر، چھ رُکنی جُیوری کے اُس فیصلے کو، جس میں مسٹر مارٹن کی ہلاکت کے کسی بھی پہلُو کے لئے مسٹر زِمر مان کو ذمّہ دار نہیں ٹھیرایا گیا، اس نظام میں نسل پرستی کی آلائش کے ثبوت سے تعبیر کیا۔ اٹلانٹا کے بیپ ٹسٹ گرجا کے پادری ڈاکٹر وار ناک نے اپنے خطبے میں شکائت کی کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران سیاہ فاموں کو رسوائی کا ہدف بنایا گیاہے، جب کہ فلوریڈا کے چھوٹے قصبے میں جہاں مسٹر مارٹن کو ہلاک کیا گیا تھا، ریورنڈ ویلری ہُیوسٹن کی حمائت میں نعرے بھی بلند ہوئے اور اُن پر آوازے بھی کسے گئے، جب اپنے خطبے میں اُنہوں نے کہاکہ نسل پرستی اور بے انصافی نے امریکی فضا کو مسمُوم کر دیا ہے۔
اِس کے برعکس، مسٹر زمر مان، اُس کے حامیوں اور عدالت کے وکیلوں نے اِس بات کو ردّ کردیا کہ مسٹر مارٹن کی ہلاکت میں نسل پرستی کا کوئی دخل تھا۔اُن کا دعوایٰ تھا کہ مسٹر زمرمان نے اُس کا تعاقب نہیں کیا تھا اور یہ کہ جب اس 17 سالہ لڑکے نے اُس کے سر کو فُٹ پاتھ پر پٹخا تھا ، تو اس کے بعد ہی اس نے اپنے بچاؤ میں گولی چلائی تھی اور فلوریڈا ریاست کے قانوں میں شہریوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب انہیں یہ محسوس ہو کہ اُن کی جان کو خطرہ لاحق ہے، تو وُہ اپنے بچاؤ میں کوئی بھی غیر معمولی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔
اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ مسٹرزمر مان نےاپنےدفاع میں متّضاد بیان دئے تھے۔ استغاثہ نے اُس کے اس بیان کو چیلنج کیا تھا کہ مارٹن نےاُس کا سر بار بار کنکریٹ پر پٹخا تھا ، جب ا س نے اسے زمین پر گرایا تھا۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ اگر زمرمان کو اس نے دبوچ رکھا تھا تو اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اُس کا ہاتھ کمر سے بندھی ہوئی پستول تک پہنچے اور وہ گولی چلائےاور یہ کہ ناک اور سر کے پیچھے اس کے زخم معمولی نوعیت کے تھے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں کہا ہے کہ مسٹر مارٹن کی ہلاکت ایک سنگین بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ اِس میں نسل پرستی کی وباٴ ، کسی بھی فرد کو مجرم ٹھہرانے کی روائت اور بندوق سے متعلّق فلوریڈا کا وُہ قانون شامل ہیں، جس کے تحت ایک فرد کو کُھلی آزادی ہے کہ اگر اُسے کسی غیر قانونی نوعیت کا خطرہ محسوس ہو ، تو وُہ اپنے بچاؤ کے لئے طاقت کو بروئے کار لانے میں حق بجانب ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ ہُڈ والی سویٹ شرٹ پہنے اس لڑکے کی موت جس طرح لوگوں کی توجّہ کا مرکز بن گئی ہے، اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے صدر کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ اقلیّتوں کے والدین کو یہ تشویش ہے کہ اُن کی اولاد عدم تحفّظ کا شکار ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر زمرمان کے وکیل نے استغا ثہ کے موقف کو شرمناک قرار دیا ہے۔لیکن، اخبار کی نظر میں یہ موٴقف قابل قدر تھا کہ اس مقدمے کا فیصلہ کُھلی عدالت میں ہوا۔جُرم تو شک و شُبہ سے بالاتر ہو کر ثابت نہ ہوا ، اور مسٹر زمرمان اپنی زندگی وبارہ شروع کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن، اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُس رات اگر مسٹر زمر مان نے پولیس کا مشو رہ مان لیا ہوتا ، اور مارٹن کا تعاقب کرنے کی بجائے وُہ اپنی گاڑی میں بیٹھا رہتا، تو اِس کے بارے کسی کو معلوم بھی نہ ہوتا اور ٹرے وان مارٹن اتوار کی اُس رات کو بخیرو عافیت گھر پہنچ گیا ہوتا۔