پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ایک سال پورا ہونا جس توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس پر بوسٹن گلوب ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ یہ نہ صرف اس واقعے کی اہمیت کا ثبوت ہے ۔ بلکہ اس بات کا بھی کہ القاعدہ کا یہ لیڈرامریکی عوام کے اندیشوں پر چھایا ہوا ہے ، اور امریکی خارجہ حکمت عملی پر بھی ۔
بن لادن کی ذات پر جو توجّہ مرکوز کی گئی ہے وہ امریکہ کی صدارتی سیاسیات سےبھی ماوریٰ جاتی ہے اخبار کہتا ہےکہ ابھی تک اس بارے میں شکوک و شبہات باقی ہیں کہ بن لادن کے ایک عشرے تک کامیابی کے ساتھ باقی دنیا سے چھپے رہنے میں پاکستان کا کتنا ہاتھ تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی نہائت ہی جانی پہچانی شخصیت ایک ایسے مکان میں مقیم تھی۔ جو پاکستان کی ممتاز ملٹری اکیڈیمی سے زیادہ دُور نہ تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ بن لادن پر چھاپے کے بعد پاکستان کے لئے غیر ملکی امداد کُچھ دیر معظل رہی لیکن پھر بحال ہو گئی ہے۔ اس کا تخمینہ ساڑھے چار ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ جو اخبار کے خیال میں ایک اچھی بات ہے۔ لیکن پاک امریکی تعلّقات اورپاکستان کی اتّحادی حیثیت کے بارے میں کئی سوالات کا جواب نہیں آیا ہے۔دو ہفتے قبل پاکستان کی پارلیمنٹ نےاُن قبائیلی علاقوں پر ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جہاں اسلامی جنگجو چھپے ہوئے ہیں۔اخبار کہتا ہے ۔کہ اوبامہ انتظامیہ نے اس درخواست کونظر انداز کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا ۔ اور پاکستان کے ساتھ جاری کشیدگی کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے اُس نے اتوار کو حقانی نیٹ ورک کے اڈے پر ایک اور ڈرون حملے میں اس نیٹ ورک کے تین جنگجوؤ ں کو ہلا ک کر دیا ۔
بن لادن کی تین بیواوؤں کو اسی مہینے پاکستان میں نظر بندی کی مدت پوری کرنے کے بعد جس طمطراق کے ساتھ سعودی عرب روانہ کر دیا گیا ۔ اُس پر اخبار کہتاہے۔ کہ موت کے بعد بھی ایک ایسے انسان کی شخصیت کو اس طرح بڑھایا چڑھایا جا رہا ہےجس نے اتنی سارے انسانی جانیں لیں اوراس قدر منافرت پھیلائی۔
لاس انجلس ٹائمز کہتا ہے۔ کہ اوباما انٹظامیہ نے ڈروں حملوں پر جو اتنا تکیہ کر رکھا ہے ۔ وُہ امریکہ کے اندر اور دوسرے ملکوں میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اتوار کو پاکستان کے قبا ئیلی علاقے پر حملے میں تین مشتبہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت جیسے واقعات کی وجہ سے یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ امریکی ڈڑون حملوں میں پچھلے تین سال کے دوران سینکڑوں شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔لیکن اخبارکے مطابق اوباما انتظامیہ کے انسداد دہشت گردی کے مشیر جان برینن نے اس کی تردید کرتے ہوئے ڈرون حملوں کے جواز میں کہا ہے ۔کہ پاکستان ، یمن، اور صومالیہ میں ان کی وجہ سے امریکی جانیں بچائی گئی ہیں۔ اور یہ کہ ان کی وجہ سے شہری آبادی کا شاذ ہی نُقصان ہوا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ایسے نُقصان کی پوری تحقیقات کی جاتی ہے۔برینن کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں نے امریکی پائلٹوںاور عملے کو لاحق خطرے بہت کم کر دئئے ہیں ، اورامریکی برّی دستوں کو وسیع تر لڑائی سے بچایا ہے۔۔۔۔۔ ڈرون حملوں پر کئی برسوں سے یہ تنقید ہو رہی ہے ۔ اور یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ کہ یہ کیسے طے کیا جاتا ہے کہ کسے ہلاک کرنا ہے اور یہ کہ ایسے حملوں میں شہری بھی تو حادثتاً ہلاک ہو سکتے ہیں، اس کے جواب میں برینن کا کہنا تھا کہ جب ہمیں کسی مخصوص شخص کے بارے میں پورا یقین ہو جائے کہ وُہ واقعی دہشت گرد ہے ۔ تو پھر صرف اُسی صورت میں ہم اس کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار دیتے ہیں ۔ ایسے شخص کے بارے میں امریکی انٹلی جنس کو یقین ہونا چاہئے ۔ کہ وہ امریکی فوجوں یا دوسرے اہداف پر حملہ کرنے کی سازش میں ملوّث ہے ۔
ابھی حال تک اوبامہ انتظامیہ کا کوئی فرد سی ئی اے کے ڈرون حملوںکی اعلانیہ تصدیق کرنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔حالانکہ شمالی پاکستان پر 2009 سے سینکڑوں ڈرون حملے ہو چکے ہیں اور چند ایک یمن اور صومالیہ میں بھی ہوئے ہیں۔ ایسے ڈرون حملے عراق ، افغانستان اور لبیا میں بھی ہوئے ہیں۔
چین کے حقوق انسانی کے ایک نابینا سیاسی منحرف چین چانگ چینگ نے بیجنگ میں امریکی سفار خانے میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس پر ہیوٹن کرانیکل اخبار کہتا ہے۔ کہ چین کا اپنے گاؤں میں نظر بندی سے اور پھر چینی سیکیورٹی کے جال سے بچ کر نکل آنے کا وقت اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا سفارت خانے میں پناہ لینا۔
یہ چالیس سالہ پیدائشی نابینا وکیل سال ہا سال سے کمیونسٹ پارٹی کا ظلم سہ رہا ہے ،کیونکہ اس نے عورتوں بانجھ بنانے اور حمل گرانے کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔اس کا کہنا ہے ۔ کہ وہ چین ہی میں رہنا چاہتاہے۔ بشرطیکہ کہ اس کی آزادی بحال کی جاتی ہے۔ اخبار کہتا ہے۔ کہ یہ چین کے لئے آزادئی اظہار اور حقوق انسانی سے اپنی وابستگی ثابت کرنے کا وقت ہے۔