اوسامہ بن لادن کو پچھلے سال پاکستان کی شہر ایبٹ آباد کی پناہ گاہ میں امریکی سپیشل فورسزکے ہاتھوں جب ہلاک کیا گیا تھا تو وہاں سےبرآمد ہونے والی بے شُمار دستاویزوں میں ان کے خطوط بھی شامل ہیں جن کا امریکی اخبارات میں باریک بینی سے تجزیہ کیا جارہا ہے۔
’ انٹڑنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون‘ کہتا ہےکہ دنیا کی نظروں سے دُور اس خُفیہ کمین گاہ میں چُھپے ہوئے اوسامہ بن لادن نے اپنی عمر کے آخری ایام ، اپنی حکمت عملی اور اپنے پیچھے چھوڑے جانے والے ترکے کا جائزہ لینے ، اور ایسی جد و جہد میں گُذار دئے، جس کا مقصد ان کے نام پر قائم اس وسیع اور عریض دہشت گرد نیٹ ورک پر اپنا تصرّف برقرار رکھنا تھا۔ وُہ ایسی تنظیموں سے بیزار ہو گئے تھے جودور دراز علاقوں میں نظریاتی اعتبار سے انہی کی تنظیم کے سایہٴ عاطفت میں سر گرم تھیں ۔ لیکن اپنے ہی ہم مذہبوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا کر مسلمانوں کی دُشمنی مول لے رہے تھے، بن لادن کو اپنے پیروکاروں سے جن معرکتہ الآرا ٴ قسم کے کارناموں کی توقع تھی ۔
ان میں صدر اوبامہ اور جنرل پٹرے یس کا قتل بھی شامل تھا۔ایک مقصد یہ تھا کہ اپنی بد نام جہاں تنظیم کا نام بدلا جائے ۔ اور ان کا یہ طریق کار تھا کہ اس کی ہر چیز کے لئے باریک بینی کے ساتھ ہدایات جاری کرنا ، حتیٰ کہ تاوان سے حاصل کیا ہوا پیسہ کس طرح خرچ کرنا چاہئیے، اس پر بھی زور تھا کہ یہ نقدی یا تو یورو کی شکل میں ہو یا پھر ڈالر کی شکل میں۔
بن لادن کے افکار اور اندیشوں کی تفصیلات سے متعلّق جمعرات کو جاری کئے گئے ان خطوط سے ایک دہشت گرد تنظیم کے اندر کے حالات کی عکّاسی ہوتی ہے۔ اور بقول اخبار کے ان سے بن لادن کی اپنی مایوسیوں کی بھی ترجمانی ہوتی ہے۔ یہ وُہ مایوسیاں ہیں جو ایک کثیر ملی کارپوریشن کا چیف آف سٹاف اس کارپوریشن کے ابتدائی مفلوک الحال دور کے بعد اس کے بے تحاشہ پھیلاؤ کے بعد محسوس کرتا ہے ۔
ان خطوط سے اس تنظیم میں بن لادن کے رول کا مکمل اندازہ ہوتا ہےاور ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کی ہدایات پرہمیشہ پورا عمل نہیں ہوتا تھا، یا کم از کم اس حد تک نہیں کہ وہ مطمئن ہوں۔ وُہ طالبان کی پاکستانی شاخ سے نالاں تھے۔اور فیصل شہزاد جیسے لوگوں کو شبہے کی نگاہ سے دیکھتے تھے جس نےٹائم سکوائزایک کار بم پھوڑنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اسی طرح امریکی نژاد پروپیگنڈسٹ انور اولکی بھی اُنہیں ناپسند تھا، جو بعد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ بن لادن کا اصرار تھا کہ ان کے پیروکارمسلمان ملکوں پر حملے کرنا بند کریں، اور اپنی تمام تر توجّہ امریکہ پر مرکوز کریں۔
چین کے معروف نابیناسیاسی منحرف اور سرگرم سماجی کارکن ، چین گوانگ چینگ کے بیجنگ میں امریکی سفارت خانے میں پناہ لینے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین جو سفارتی محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی ، ’یوُ ایس اے ٹوڈے‘ کے مطابق وُہ دور ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اور چین نے اس اخبار کو بتا یا ہے کہ اُسے یقین ہے کہ امریکی محکمہء خارجہ نے چینی حکام کے ساتھ جو امور طے کئے ہیں ۔ ان کی بدولت اس کے خاندان کی سلامتی یقینی ہو جائے گی اور و ہ سب بحفاظت چین سے باہر نکل آ ئیں گے ۔ امریکی محکمہء خارجہ کے مطابق چین نے اشارہ دیاہے ۔ کہ وہ سفر کی دستاویزات کے لئے چین کی درخواست منظور کرے گا۔اور یہ کہ حکومت امریکہ ویزا کے لئے چین اور اس کے اہل خانہ کی ویزا کی درخواست فوراً منظور کرے گی ۔ اخبار کےمطابق نیو یارک یونیورسٹی نے چین کو فیلو شپ کی پیش کش کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لئے پس پردہ مذاکرات کئے۔
’ واشنگٹن ٹائمز‘ ایک تجزئے میں کہتا ہےکہ سیاسی منحرف چین کا یہ معاملہ صدر اوبامہ اور متوقع ری پبلکن صدارتی امید وار مٹ رامنی ایک کلاسکی امتحان کی حیثیت رکھتا ہے، جو یہ ہے کہ آیا سیاسی اور اقتصادی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر جمہوریت اور انسانی حقوق سے متعلق اپنے تاسیسی اصولوں کا دفاع کرنے پر ڈٹے رہنا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ ا امریکہ نے ہمیشہ دنیا کے ہر علاقے میں جہاں لوگ آمریت کے تلے دبے ہوئے ہوں لوگوں کو اپنی آزادی کے لئے جد و جہد کا مشورہ دیا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: