صدر اوباما نےمعاشی ناہمواری کی مذمّت میں جوتقریر کینسس میں کی تھی اُس کی حمایت میں’واشنگٹن پوسٹ‘ لکھتا ہے کہ گرچہ اِس کےنتیجے میں صدر پرطبقاتی کشمکش کو ہوادینے کے طعنے دئے گئے ہیں، حقیقت یہی ہے کہ مسٹر اوباما کاموٴقف حق بجانب ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آمدنی کی نا ہمواریاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں ۔
اخبار نے اقتصادی تعاون اور ترقّی کے ادارے کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پُوری صنعتی دُنیا میں امیراورغریب کے درمیان تفاوت بڑھتا جا رہا ہے۔ ری پبلکنوں کو جو اس حقیقت اور اس سے مرتّب ہونے والے بُرے اثرات کو نہیں مانتے، اخبار کامشورہ ہے کہ وہ مسٹر اوباما کےپیشرو یعنی جارج بُش کی اس بات کو یاد کریں کہ ہم پریہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کےمستقبل میں ہر شہری کا حصّہ یقینی بنائیں۔
آمدنیوں کی ناہمواری ایک حقیقت ہے اورسوال یہ ہے کہ آیا مداوا ناہمواریوں کو دور کرنے کی پالیسیاں اپنانے میں ہے یا ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے میں ہے۔ مسٹر بُش کے اس بیا ن کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ یہ مسٹر اوبامہ کے کینسس کےپیغا م کے زیادہ قریب ہے بہ نسبت اس سال کے ری پبلکن صدارتی امیدواروں کے حکومت دُشمن بیانوں کے ۔
صدر اوباما کی اسی تقریر پر نیو جرسی کا اخبار ’سٹار لیجر‘ کہتا ہے کہ ان کےلئےبالکل مناسب تھا کہ وہ صدر تھیو ڈور روزویلٹ کی اس تقریر سے وجدان حاصل کریں جس میں انہوں نےمعاشی نا ہمواری کی مذمت کی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ روزویلٹ ری پبلکن تھے، لیکن وہ ان افراد میں اجنبی لگتےجِن کا آج کی ری پبلکن پارٹی پر تصرّف ہے۔
اخبار کہتا ہے ۔ کہ روزویلٹ کا ایمان تھا کہ حکومت کو فعال ہونا چاہئے۔ جس کے لئے آزادانہ کاروبار کی زیادتیوں پر روک لگانا فر ض بنتا ہے۔ یعنی آج کے دور کے ڈیموکریٹوں کا مسلک ۔
اخبار کہتا ہے کہ ترقّی پسند انکم ٹیکس روزویلٹ ہی نے مروّج کیا تھا۔انہوں نے بچوں سے بیگار لینے کو ممنوع قرار دیا ۔ کام کرنے کی جگہ کو محفوظ بنایا۔ اور اوقات کار آٹھ گھنٹے یومیہ مقرّر کئے۔ انہوں نے اجارہ داریوں کو توڑا ۔ ریل کے کرائے ضابطے کے تحت کر دئے۔ اور کوئلے کے کانکنوں کی ہڑتال میں مداخلت کر کے ان کے اوقات کار کم کروائے اور ان کی اجرتیں بڑھوایئں۔
اخبار کہتا ہے کہ روزویلٹ کو اوبامہ کی زبانی یہ سن کر وحشت ہوتی۔ کہ اس وقت متوسّط طبقہ مار کھا رہا ہے ۔ جب کہ قومی دولت کے بیشتر حصّے پر متمول طبقے کا قبضہ ہے۔ اوپر ی طبقے کی آمدنی پچھلے چند عشروں کے دوران اڑھائی سو گُنا بڑھ گئی ہے۔ جب کہ اوسط خاندان کی آمدنی چھ فی صد گر گئی ہے۔ وا ل سٹریٹ پر لگائے گئے ضابطے کمزور ہو نے کی وجہ سےمعیشت کساد بازاری کی شکار ہو گئی اور بے روز گاری کے بحران نے جنم لیا ہے۔
اخبار کی نظر میں اس حقیقت پر ری پبلکن ردّ عمل انصاف کے امریکی تصوّر کی تضحیک کے برابر ہے،کیونکہ وہ ٹیکسوں میں مزید کمی اور متوسّط طبقے کو میسّر مراعات میں کٹوتی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اور اخبار کا خیال ہے کہ اگر روزویلٹ زندہ ہوتے تو وہ ری پبلکنوں کی اس روش کو دیکھنے کے بعد ڈیموکریٹوں کی پارٹی میں چلے جاتے۔
’نیویارک ٹائمز‘ میں اسی موضوع پر ٹموتھی اِیگن ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ صدراوبامہ کی یہ تقریر اچھی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ آنے والی انتخابی مہم میں یہ طےپائے گا کہ آیا متوسّط طبقہ مار کھائے گایا بچایا جائے گا۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ نہ تو اوباما ٹیڈی روزویلٹ ہیں اورنا ہی آج کی ری پبلکن پارٹی ان کی صدارت کے دور کے کہیں آس پاس ہے۔
اس ایک صدی کے دوران مصنّف کے خیال میں دونوں پارٹیوں کا رول بدل گیا ہےاور آج کی ری پبلکن پارٹی کا کوئی بھی اجتماع، انکم ٹیکس، بچوں کی بیگار، صحت کی نگہداشت اور ماحولیات کے تحفظ کے بارے میں روز ویلٹ کی بات سننے کا روادار نہیں ہوتا اور نا ہی اس بات کا کہ مزدور کو تحفظ دیا جائے، کارپوریٹ شعبے کی زیادتیوں کو روکا جائے اور غریب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: