رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات اداریے، مضامین: پاکستانی اسپرنگ


امریکی اخبارات اداریے، مضامین: پاکستانی اسپرنگ
امریکی اخبارات اداریے، مضامین: پاکستانی اسپرنگ

پاکستان میں بھی ایک اچھی تبدیلی آرہی ہے، اور وہ یہ کہ، نوجوان نسل سیاست میں زیادہ دلچسپی لینے لگی ہے: نیو یارک ٹائمز

اخبار’ نیو یارک ٹائمز‘ میں ’پاکستانی اسپرنگ‘ کے عنوان سے ایک مضمون چھپا ہے۔ گذشتہ برس عرب دنیا میں جب آمر حکمرانوں کے خلاف ایک کے بعد ایک ملک میں تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئیں، تواِس سارے عمل کو عرب بہار کا نام دیا گیا۔

مضمون نگار لکھتی ہیں کہ پاکستان میں بھی ایک اچھی تبدیلی آرہی ہے، اور وہ یہ کہ، نوجوان نسل سیاست میں زیادہ دلچسپی لینے لگی ہے۔

اگر آپ کسی کیفے، کسی بیوٹی پارلر یا کسی بھی دفتر میں چلے جائیں، وہاں پر کسی ٹیلی ویژن ڈرامے کے بارے میں بات کرنے کے بجائے، اکثر نوجوان سیاست کے بارے میں بحث کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

مضمون نگار لکھتی ہیں کہ پاکستان کی پرانی نسل کے لوگوں کو اکثر یہ شکوہ رہتا تھا کہ ملک کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے نوجوان کو ملک کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن، اب اُن لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی نسل آخرِ کار بیدار ہونا شروع ہوگئی ہے۔ مضمون نگار کے مطابق، عرب دنیا کے نوجوانوں کے برعکس، پاکستانی نوجوان کسی تحریک کے نعروں سے متاثر نہیں ہورہے۔ بلکہ، وہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے، مثبت تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اب سیاست نظریات کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔ ایسی حکومتی پالیسیاں بننی چاہئیں جِن سے بدعنوانی ختم ہو اور ملازمتوں کے مواقع بڑھیں۔

مضمون نگار کے مطابق، نوجوانوں کی تبدیلی کی خواہش نے ہی سابق کرکٹر عمران خان کو ایک ایسی کامیابی دے دی ہے جس کی امید نہیں کی جارہی تھی۔ اور، عمران خان کی پارٹی، ’تحریکِ انصاف‘ اب سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بہت متحرک ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ حال ہی میں پاکستان میں کئی ایسی ویب سائٹس بنی ہیں جن کے ذریعے 2013ء کے انتخابات کے لیے ووٹروں کی رجسٹریشن ہوسکتی ہے اور اُن میں سے زیادہ تر ویب سائٹس کسی سیاسی پارٹی سے منسلک نہیں۔ ویب سائٹس بنانے والے صرف یہ چاہ رہے ہیں کہ اگلے انتخابات میں نوجوان زیادہ سے زیادہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں۔

اِسی طرح، پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے مہمات چلا رہی ہیں۔ نوجوان سیاست دانوں کو سامنے لایا جارہا ہے اور مسلم لیگ نواز کے راہنما، نواز شریف نےحال ہی میں پارٹی کی ایک نئی حکمتِ عملی ترتیب دی ہے جس میں ’فیس بُک‘ پر زیادہ انحصار اور نوجوان ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے انتخابات میں جیتنے کے بعد طالب علموں میں تین لاکھ لیپ ٹاپ بانٹنے کا وعدہ شامل ہے۔

اخبار’نیو یارک ٹائمز‘ ہی کے اداریے میں اوباما انتظامیہ کے اِمیگریشن کےقوانین سے متعلق نئے اقدامات کا خیر مقدم کیا گیا ہے، جِس سے، اخبار کےمطابق، اُن ظالمانہ طریقوں کا خاتمہ ہوجائے گا جِن کے تحت قانونی رہائی اختیار کرنے کی درخواست دینے والوں کو اپنےخاندانوں سے علیحدہ رہنا پڑتا ہے۔

امریکی قانون کے مطابق، کوئی بھی غیرقانونی تارکینِ وطن جِس کی بیوی، شوہر یا والدین امریکی شہریت رکھتے ہوں، گرین کارڈ کی درخواست دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔لیکن، اُسے یہ درخواست اپنے ملک میں جا کر دینی ہوتی ہے اور کوئی بھی غیرقانونی تارکینِ وطن اگر ایک دفعہ امریکہ چھوڑ دے تو وہ تین سال تک دوبارہ امریکہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اِس طرح، اُنھیں اپنے خاندان والوں سے بہت دیر تک دور رہنا پڑتا ہے۔

تین سال کی اِس پابندی سے استثنیٰ کی درخواست دی جاسکتی ہے، لیکن اِس کے لیےبھی درخواست گزار کو اپنے ملک جا کر ایسا کرنا ہوتا ہے، اور کیونکہ، یہ استثنیٰ بہت مشکل سے ملتا ہے اور اِس میں دیر بھی بہت لگتی ہے، اِس لیے عموماً لوگوں کو اپنے خاندانوں سے بہت عرصے تک الگ رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو غیر قانونی تارکینِ وطن قانونی حیثیت حاصل کرنےکی اہلیت بھی رکھتے ہیں وہ یہ طریقہٴ کار استعمال نہیں کرتے اور غیر قانونی حیثیت کے ساتھ ہی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔

نئی تجاویز کے مطابق، اِن تارکینِ وطن کو ایک عبوری استثنیٰ امریکہ کے اندر ہی مل جائے گا۔ اِس لیے، وہ اُس وقت ہی اپنے ملک جائیں گے جِس وقت اُن کو پتا ہوگا کہ اُن کا گرین کارڈ ملنے والا ہے۔اِس طرح، اُنھیں اپنے گھر والوں سے زیادہ عرصے تک دور نہیں رہنا پڑے گا۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ نے خبر شائع کی ہے کہ امریکی بحریہ نے ایران کی طرف سے علاقہ چھوڑ جانے کی دھمکی ملنے کے کچھ ہی روز بعد 13ایرانی مچھیروں کو صومالیہ کے قزاقوں سے رہائی دلوائی اور ایران کی وزارتِ خارجہ نے اِس کا خیر مقدم کیا۔ جمعے کو امریکی بحریہ نے اعلان کیا کہ اِن ماہی گیروں کو بحیرہٴ عرب کے اندار 40روز قبل قزاقوں نے اغوا کر لیا تھااور جمعرات کو امریکیوں نے اُن کو چھڑانے کے لیے کارروائی کی۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG