رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز


امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز
امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز

اخبار لکھتاہے کہ جابز کی مصنوعات نے عام پبلک میں پرسنل ٹکنالوجی رکھنے کے رجحان میں تیزی پیدا کی جس کی وجہ سے ٹکنالوجی کی اس صنعت میں بڑے پیمانے پر وہ دلچسپی پیدا ہوئی جو کسی زمانے میں ٹکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے صرف خواص یا مشغلے کے طور پر ٹکنالوجی کو اپنانے والوں میں ہوتی تھی۔

اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں امریکہ میں بے روزگاری کے خاتمے اور معیشت کی ترقی کےلیے امریکی صدر براک اوباما کے 447 ارب ڈالر کے بل اور اس حوالے سے جاری سیاسی رسہ کشی کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر اوباما کا یہ بل جس میں ٹیکسوں میں چھوٹ ، انفرا اسٹرکچر کے پراجیکٹس ، ریاستوں اور مقامی حکومتوں کے لیے امداد اور بے روز گاروں کے لیے مراعات شامل ہیں۔ اگرچہ کلی طور پر کوئی جامع بل نہیں ہے تاہم یہ معاشی سر گرمی شروع کرنے اور کسی اور کساد با زاری سے بچانے کے طریقوں پر بحث کے لیے بالکل صحیح موقع فراہم کرتا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ صورتحال کی ہنگامی نوعیت کے باوجود کیپیٹل ہل میں نہ تو اس بل کو اور نہ ہی اس کے کسی حصے کو کسی بھی جگہ ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا ہے ۔

اخباراس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اصل مسئلہ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کے درمیان نظریاتی اختلاف ہے، ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ معیشت کو متحرک کیا جائے جب کہ ری پبلکنز معیشت پر واشنگٹن کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ اوباما کے منصوبے میں کچھ ایسے نکات ہیں جو دونوں جماعتوں کے فلسفوں سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن ایسا لگتاہے کہ وہ ان نکات پر مل کر کام کرنے سے زیادہ اگلے سال کے انتخابات کی مہم میں اپنے نمبر بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینی طورپر معیشت پر ایک ریفرنڈم ہوں گے۔

امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز
امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز

آگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ اس وقت قانون سازوں میں اتفاق رائے ہو تو بھی بے روزگاری جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے نمٹنا بہت دشوار ہے کیوں کہ اس وقت معیشت کو ترقی دینے کا کوئی یقینی طریقہ موجود نہیں ہے ۔ لیکن اب جب کہ 23 ملین امریکی کل وقتی ملازمتوں کے منتظر ہیں بے روزگاری ملک کا ایک واحد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اور اخبار مشورہ دیتا ہے کہ اس وقت کانگریس کے لئے کسی بھی کام سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو کام پر واپس لائے۔اور یہ کہ قانون ساز اوباما کے منصوبے سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں، انہیں کم از کم کوئی تومنصوبہ سامنے لانا چاہیے ۔ کیوں کہ یہ وقت سیاست کے کھیل کو روک کر قانون سازی شروع کرنے کا ہے ۔

شکاگو ٹریبیون نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کی کی گئی ایک تقریر میں فلسطینی صدر محمود عباس سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی اپیل اور مسٹر عباس کے اس موقف کو موضوع بنایا ہے کہ وہ اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک اسرائیل بستیوں کی تعمیر نہیں روک دیتا ۔

اخبار لکھتا ہے کہ اب مسٹر عباس کے ارادوں کو پرکھنے کا وقت آگیا ہے ۔ مسٹر نتن یاہو کو چاہیےکہ وہ مغربی کنارے اور متنازع مضافاتی علاقوں میں تعمیر ات مکمل طور پر روک دیں ۔ اس طرح مسٹر عباس یا تو مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں گے اور سنجیدگی سے مذاکرات کریں گے یا یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ مذاکرات سے گریز کا ان کا کوئی حربہ تھا۔

اخبار لکھتا ہے کہ بستیوں کی تعمیر روکنے سے ممکن ہے کہ سلامتی کونسل کے رکن ملکوں کی ایک کافی تعداد ، فلسطینیوں کے لیے ریاست کے درجے کے اعلان پر زور دینے کی بجائے کی بجائےمذاکرات پر زور دینے کو ترجیح دیں۔ اور بستیوں کی تعمیر پر مکمل پابندی سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ مسٹر نتن یاہو واقعی مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ بیشتر د نیا بلکہ اسرائیل کے کچھ شہریوں کو بھی شک ہے کہ آیا اسرائیل واقعی مذاکرات کے ذریعے امن میں دلچسپی رکھتا ہے۔

امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز
امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز

آگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ سلامتی کونسل فلسطینیوں کو جلد ہی کوئی با ضابطہ جواب دے دے گی لیکن فلسطینی اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کے ذریعے ریاست کی تشکیل کا اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور یہ کہ صرف مذاکرات ہی کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ ان سرحدوں کا تعین اور اسرائیل کی سلامتی کے تحفظ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ اس لئے ہمیں مذاکرات کے بارے میں مذاکرات بند کر دینے چاہییں۔ اور اخبار اپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسٹر نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ آئیے کوئی ڈرامائی قدم اٹھا ئیں ۔ تو وہ یہ ڈرامائی قد م اٹھائیں ۔ بستیوں کی تعمیر روکیں اور مذاکرات شروع کریں ۔

اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں ٹکنالوجی کی دنیا کی معروف شخصیت اسٹیو جابز کے انتقال کے بعد ٹکنالوجی کے مستقبل کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ تیس سال سے پرسنل ٹکنالوجی کی ہر قسم کا تعلق کئی اعتبار سے اسٹیو جابز اور اس کی کامیابیوں سے رہا ہے جن میں پہلے مقبول ہوم کمپیوٹر سےلے کر ویب ایجاد کرنے والی مشین تک اور اب آئی پاڈ ، آئی فونز اور آئی پیڈز تک شامل ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ جابز ایک ایسا ٹکنالوجسٹ تھا جس کی بھر پور صلاحیت اور تجربے نے کئی عشروں تک کے لیے ٹکنالوجی کا ایجنڈا طے کرنے میں مدد کی، لیکن اب جب صارفین کی ٹکنالوجی اس شخصیت سے محروم ہو چکی ہے جس نے بلا شبہ ایک عرصے کے لیے اس کے راستے کی منصوبہ بندی کی تھی سوال یہ ہے کہ کیا اس کی غیر موجودگی میں یہ صنعت کسی واضح سمت کی طرف رواں رہ سکے گی ؟کیا کوئی مرکزی طاقت یعنی کوئی کمپنی یا کوئی نئی ٹکنالوجی یہ واضح کر سکے گی کہ ہماری اگلی منزل کیا ہو گی؟

امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز
امریکی اخبارات: ملازمتوں کا بل، فلسطین تنازع اور سٹیو جابز

اخبارا س ضمن میں ٹکنالوجی کی دنیا کی معروف شخصیات کے حوالے سے لکھتا ہے کہ جابز کے بغیر ٹکنالوجی کا قریبی مستقبل ممکن ہے اپنا فوکس کھو دے اور ممکن ہے ہم نے اب تک جو سبق سیکھے ہیں انہیں فراموش کر دیں اور ممکن ہے کہ ہم کوئی نئی ٹکنالوجی اختراع کرنے کی بجائے صرف انہیں ٹکنالوجیز کو مزید بہتر بناتے رہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ کار آمد ہیں ۔

اخبار لکھتاہے کہ جابز کی مصنوعات نے عام پبلک میں پرسنل ٹکنالوجی رکھنے کے رجحان میں تیزی پیدا کی جس کی وجہ سے ٹکنالوجی کی اس صنعت میں بڑے پیمانے پر وہ دلچسپی پیدا ہوئی جو کسی زمانے میں ٹکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے صرف خواص یا مشغلے کے طور پر ٹکنالوجی کو اپنانے والوں میں ہوتی تھی پھرعام لوگوں کی اس دلچسپی کو میڈیا اور بلاگز نے مزید پھیلایا ۔

اخبار لکھتا ہے کہ ممکن ہے کہ اب دنیا بھر میں لوگ لیبارٹریوں اور اسٹوڈیوز میں اس خلا کو پر کرنے کی اور خود کو نئے رجحان سیٹ کرنے والے کے طور پر منوانے کی کوشش کریں۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ آرٹ اور ٹکنالوجی کو ترتیب دینے میں جابز کی مہارت کے نتیجے میں بار بار مستقبل کی اختراعات جود میں آئیں۔اس لیے اخبار اپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسٹیو جابز کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔اور اگر ہم ان کا مقام اور مرتبہ کسی اور کو دینے یاان سے مقابلے کی کوشش کریں گے تو ہم مشکل میں پھنس جائیں گے کیوں کہ یہ وہ مقابلہ ہے جسے جیتنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔

XS
SM
MD
LG