اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ نے لڑکیوں کی تعلیم کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔اخبار لکھتا ہے دنیا بھر میں تقریباً سات کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور اُن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اور یہ مسئلہ امریکہ کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
’ہیوسٹن کرانیکل‘ وجہ اِس کی یہ بیان کرتا ہے کہ امریکہ کی فوج اور معیشت کے بہترین مفاد میں ہے کہ کرہٴ ارض پر سب ممالک خوشحال اور مستحکم ہوں، کیونکہ غریب اور غیر مستحکم ممالک میں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، اور مستحکم ممالک iPhoneاور کوکا کولا خریدتے ہیں۔
لیکن، اخبار موضوع کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے توجہ دلاتا ہے کہ کسی بھی ملک میں استحکام تعلیم سے آتا ہے، خٕصوصاً بچیوں کی تعلیم سے۔ مگر غریب ممالک میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کو تعلیم دینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اخبار لکھتا ہےجب54میں سے 47افریقی ممالک میں 50فی صد سے بھی کم لڑکیاں سیکنڈری اسکول تک پہنچ پاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو نے ’تعلیم سب کے لیے‘ پروگرام کے تحت سنہ 2002ء میں ’فاسٹ ٹریک ‘ نامی اقدام شروع کیا جو یہ یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے سب بچے مناسب تعلیم حاصل کرسکیں۔
اخبار کے مطابق افغانستان سمیت 45پس ماندہ ممالک اس پروگرام سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں اور افریقہ میں سنہ 2004ء سے 2008ء کے دوران اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں 50فی صد اضافہ ہوا ہے۔اب امریکہ سے اِس فنڈ میں تین سال کے دوران ساڑھے 37کروڑ ڈالر دینے کے لیے کہا گیا ہے ، اور یہ تقاضا برمحل بھی ہے، کیونکہ دنیا میں آج کی لڑکی اور کل کی عورت وہ قوت ہے جو خوش حالی کی پیامبر ہو سکتی ہے۔
اخبار’ شکاگو ٹربیون‘ کے ادارتی صفحے پر اسٹیو چیپ مین کا ایک مضمون چھپا ہے۔ ٹربیون کے ادارتی بورڈ کے اِس رُکن نے گذشتہ جمعرات کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے صدر اوباما کے خطاب کا موازنہ 1971ء میں صدر رچرڈ نکسن کے خطاب سے کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ صدر نکسن نے بھی قوم کو یقین دلایا تھا کہ اچھےدِٕن آنے والے ہیں۔ مگر ہوا اِس کے برعکس۔ اور اب صدر اوباما نے بھی یہی امید دلانے کی کوشش کی ہے۔ مگر اُن کی تقریر’ ترکش کے پرانےتیروں کی نئی آزمائش‘ کے سوا کچھ اور معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ، صدر کے نئے منصوبے میں زیریں ڈھانچے میں 140ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے، تاکہ امریکی دوبارہ کام پر جاسکیں۔ مگر 2009ء میں اقتصادی بحالی کے پیکیج کے ذریعے 100ارب ڈالر شاہراہوں، پلوں اور دیگر عام مقامات کی تعمیر کے لیے مخصوص کیے گئے تھے۔
مگر مصنف Hoovers Institutionکے ماہرینِِ اقتصادیا ت، جان کوگن اور جان ٹیلر کے حوالے سے توجہ دلاتے ہیں کہ سنہ 2010ء کے آخر تک وفاقی حکومت اس مد میں صرف 5.6ارب ڈالر صرف کر پائی ۔ اور جہاں تک ٹیکسوں میں کٹوتی کا تعلق ہے سنہ 2009ء کی ٹیکس کٹوتیوں سے حاصل کردہ رقوم بھی امریکیوں نے یا تو اپنے قرضے چکانے کے لیے صرف کیں یا بچتوں میں جمع کروادیں۔ چناچہ، مصنف کا کہنا ہے کہ جب معیشت اتنی کمزور اور سست رفتار ہو جائے تو اِسے سنبھلنے میں برسوں درکار ہوتے ہیں۔ صدارتی جوشِ خطابت میں ’کُن‘ کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔
اخبار ’بوسٹن گلوب‘ کے اداریے کا عنوان ہے Tehran gets all wet۔ اخبار کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ پر سوشل
نیٹ ورکنگ کی سائٹس نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے بعض لیڈروں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں اور اگر کسی آمرانہ حکومت کی ہرزہ سرائی دیکھنا ہو تو ایران کے بنیاد پرست لیڈروں کو دیکھ لیجئے جِن میں حسِ ظرافت نام کو نہیں اور جنھوں نے اُن ایرانی نوجوانوں کے خلاف کارروائی کی ہے جنھوں نے اِس موسمِ گرما فیس بک پر ایک صفحہ شروع کیا جس کا عنوان تھا Water Wars in Tehranاِس صفحے نے ملک بھر سے ساڑھے 24ہزار لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور رُکن بنالیا۔
اِس میں کہا یہ گیا تھا کہ نوجوان اپنی واٹر گنز یعنی پانی کی دھار والی بندوقیں لے کر واٹر وارز کے لیے قریبی واٹر پارکوں میں جمع ہوجائیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایران میں ساڑھے سات کروڑ کی آبادی نے 65فی صد لوگ 30برس سے کم عمر ہیں۔ چناچہ، موسمِ گرما میں یہ سرگرمی اُن کے لیے ایک اچھی تفریح ثابت ہوتی۔ مگر ایرانی حکومت نے اِسے غیر شائستہ قرار دے کر نہ صرف واٹر پارکس بند کردیے بلکہ بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔
تہران میں پولیس کے سربراہ حسین ساجدینیہ کا کہنا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
مگر اخبار لکھتا ہے، کھلونوں کی دوکان کے ایک مالک کا کہنا ہے کہ ملک میں واٹر گنز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: