’نیویارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ چین، روس اور ہندوستان اپنے آپ کو عالمی لیڈر سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وُہ پھر کیوں شام اور ایران کی خطرناک حکومتوں کو تباہی کے راستے پر گامزن رہنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں؟
اخبار کہتا ہے کہ گیارہ روز قبل شام میں پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی سے متعلق عرب لیگ کی سرپرستی میں پیش کی جانے والی قرارداد کو سلامتی کونسل میں روس اور چین نے ویٹو کر دیا تھا جس کے بعد شام میں تشدّد میں اضافہ ہوا ہے۔ہندستا ن نے اس قرار داد کی حمائت کی تھی لیکن اس کے بعد اس نے اس پرعمل درآمد کی راہ میں روڑے اٹکائے۔
یوں بھی اگر یہ قرارداد پاس بھی ہو جاتی، توبھی اکسیر تو نہ ثابت ہوتی۔ لیکن، کم ازکم منظور ہو جانے کی صورت میں مسٹر اسد کو بین الاقوامی یک جہتی کا ایک پیغام تو مل گیا ہوتا۔ اب شام میں مزید بہت سی انسانی جانوں کی ہلاکت کے بعد لگ رہا ہےکہ چین کے طرزِعمل میں شائد تبدیلی آ رہی ہے،جس کے وزیر اعظم نے یورپی اتّحاد کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ جنگ اور افراتفری کو روکا جائے۔
روس کوبھی اسی قسم کا احساس ہونے لگا ہے، اور چین کی اس تبدیلی سے شائد وہ بھی مسٹر اسد کی حمائت پر نظر ثانی کر رہاہو ۔چین نے روس سے تیل خریدنے کا سمجھوتہ تو کیا ہے، لیکن وہ اب بھی ایرانی تیل کا ایک بڑا گاہک ہے۔ ہندوستان اب ایرانی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ دونوں کو تیل کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر وہ سعودب عرب کی پیشکش کوقبول کریں تو ایرانی تیل کی کسر پوری کر سکتے ہیں۔ الغرض، تینوں ملکوں پر لازم ہے کہ وہ ایران کےجوہری عزائم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ روس اور چین کے لئے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسٹر اسد نے اپنے ہی لوگوں کا جو محاصرہ کر رکھا ہے، وہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہ تینوں کی قیادت کا امتحان ہے۔ خاس طور پر ہندوستان کا جسے سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
’میامی ہیرلڈ‘ کے ایک کالم میں شام کے بارے میں ایک بالکل ہی مختلف تناظُر پیش کیا گیا ہے۔ پیٹرٕک بُیو کینن کا استدلال ہے کہ شام پر کس کی حکمرانی ہے۔ اس سے امریکہ کا کوئی اہم مفاد وابستہ نہیں ہے اور بشارالاسد کی جانب سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ عراق میں صدام حسین کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد وہاں کےعیسایئوں اور مصر میں مبارک کے زوال کے بعد قبطی عیسایئوں کو مشق ستم بنایا گیا۔ اب کیا ایک اور سیکیولر ڈکٹیٹر کو گدی سے اُتار کر اسلامی بنیاد پرستوں کے ایک اور ٹولے کو برسر اقتدار لانا مقصد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق ہو ، افغانستان ہو، یا لبیا ہو ان میں سے ہر ایک میں جو نتیجہ برآمد ہوا ہے وہ توقّع سے بالکل برعکس ثابت ہوا ہے۔ اب شام میں مداخلت کرنے سے مختلف نتیجے کی کیونکر توقّع کی جا سکتی ہے؟
’سین فرانسسکو کرانیکل‘ ٕمیں سنہ2013 کے لئے صدر اوباما کے بجٹ پر ایک مضمون میں مریلا کیلی کہتی ہیں کہ ایک طرف بیشتر وفاقی اداروں کو کفائت کا پابند کیا جارہا ہے۔ اور دوسری طرف جوہری ہتھیاروں کی سرگرمیوں کےلئے پچھلے سال کے مقابلے میں 20 فی صد زیادہ پیسہ رکھا گیا ہے۔ یعنی صدر ریگن کے سخت سرد جنگ کے دور میں جوہری ہتھیاروں کے لئے جو سب سے بھاری بجٹ تھا ۔ اس سے بھی زیادہ اور اگر اسے منظور کر لیا گیا تو یہ امریکہ کی تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے لئے سب سے بڑا بجٹ ہوگا۔
مضمون میں یاد دلایا گیا ہے کہ سنہ 2009 میں پراگ میں تقریر کرتے ہوئے مسٹر اوبامہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ کا وعدہ ہے کہ اِس دُنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک امن اور آشتی کا ایک گہوارہ ہونا چاہئیے، جس کا ساری دنیا نے خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن، اخبار مسٹر اوباما کو یاد دلاتا ہے کہ صاحبِ صدر یہ تو وہ بجٹ نہیں ہے جِس سے اِس عہد کا ایفا ہوسکتا ہو۔اخبار کہتا ہے کہ وقت آ گیا ہے جب کانگریس کے ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ارکان کوبجٹ کی کُلہاڑی کو تیز کرنا ہوگا۔
اِس مضمون کے بقول، ملکی سطح پر محکمہء توانائی کے بجٹ میں توانائی کی پیداوار میں بہتری لانے اورقابل ِتجدید توانائی کے لئے مختص رقم کے مقابلے میں، جوہری ہتھیاروں کی سرگرمیوں کے لئے تین گنا زیادہ رقم تجویز کی گئی ہے۔ کیلی فورنیا کی لارنس لٕور مور نیشنل لیبارٹری کے لئے، جو امریکہ کی جوہری ہتھیاروں کی تحقیقی لیبارٹریوں میں سے ایک ہے، جوہری ہتھیاروں کے لئے زیادہ، اور صاف سُتھری توانائی کی تحقیق اور فروغ کے لئے کم رقم رکھی گئی ہے۔ اِسی طرح، اِس لیبارٹری کےلئے کُل جتنی رقم کےلئے کہا گیا ہےاُس میں سے 88 فی صد جوہری ہتھیاروں کی تحقیق اور اُنہیں بنانے کے لئے مُختص ہوگی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: