‘واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایک مضمون میں لکھا گیا ہے کہ گوکہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کا معاملہ تو ابھی حل نہیں ہوا، لیکن لگتا ہے کہ ایران اپنی اِس دھمکی سے پیچھے ہٹ رہا ہے جِس میں اُس نے کہا تھا کہ اگر اُس پر پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ آبنائے ہرمز بند کردےگا۔امریکہ نے کہا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو امریکہ بہت ہی تباہ کُن جواب دے گا۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ لگتا ہے ایران پر پیغام واضح ہوگیا ہے۔ اِسی لیے، ایران کے اعلیٰ اہل کار اپنے بیان میں نرمی لارہے ہیں۔
وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے ترکی کے دورے کے دوران انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے تاریخ میں کبھی بھی اِس اہم بحری گزرگاہ کو بند نہیں کیا۔
کالم نگار لکھتے ہیں کہ وزیرِٕ خارجہ کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں جو جنگ یا تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، لگتا ہے کہ وہ ٹل رہا ہے اور اس کے ٹلنے کا ایک اور اشارہ اسرائیل کے وزیرِ دفاع ایہود براک کے اِس بیان سے ملا، جِس میں اُنھوں نے کہا کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ کرنا بہت دور کی بات ہے۔
اُدھر ایک نئی چیز یہ سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور ایران کی پسِ پردہ بات چیت جاری ہے اور کہا جارہا ہے کہ اِس میں بھی ایران کو دیا جانے والا پیغام تقریباً ویسا ہی ہے جو وائٹ ہاؤس کے حالیہ بیان میں دیا گیا کہ جب سے صدر اوباما نے عہدے سنبھالا ہے وہ ایران سے اُس کے جوہری پروگرام سے متعلق سنجیدہ اور تعمیری مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
کالم نگار لکھتے ہیں کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کی تیل کی منڈی کو نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ چین اور بھارت نے بھی ایران سے تیل کی خریداری کم کردی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں ایران کی کرنسی کی قدر میں بھی بے انتہا کمی آئی ہے۔ اِس لیے، کچھ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شاید اِن سب وجوہات کی بنا پر ایران فی الحال جوہری ہتھیار تیار نہ کرے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ نے اپنے اداریے میں مصر کے اقتصادی بحران کو موضوع بنایا ہے ، جِس میں لکھا گیا ہے کہ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال جمہوریت کے مسقتبل کی امیدوں پر پانی پھیر رہی ہے۔
مصر میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 36بلین ڈالر سے کم ہو کر 10بلین ڈالر رہ گئے ہیں اور وہ مشکل مارچ تک چل پائیں گے۔ ملک کی کرنسی سخت دباؤ میں ہے اور اِس کی قدر میں کمی افراطِ زر میں اضافہ کرسکتی ہے اور سماجی بے چینی بڑھا سکتی ہے، کیونکہ ملک میں 25فی صد نوجوان بے روزگار ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ مصر کے فوجی حکمرانوں کو اب اندازہ ہونے لگا ہے کہ معیشت کا بحران سر پر کھڑا ہے۔
مئی میں اُنھوں نے آئی ایم ایف کی طرف سے 3.2بلین ڈالر کا قرضہ یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ وہ اُس پر لگائی گئی شرائط پر عمل نہیں کرسکتے جِن میں یہ بھی شامل تھا کہ تیل اور خوراک پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی واپس لے لی جائے۔ تاہم، اب حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرضے کی درخواست دے دی ہے۔
اُدھر، خبر رساں ادارے رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اخوان المسلمین کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ اشرف بدرالدین نے کہا کہ اُن کی جماعت اور دوسری اہم سیاسی جماعتیں معیشت کو چلانے کے بارے میں کسی اتفاقِ رائے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور خلیجی ممالک نے گذشتہ برس مصر کو اربوں ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، یہ امداد ابھی تک نہیں دی جاسکی، کیونکہ یہ ممالک ملک میں سیاسی استحکام کا انتظار کررہے تھے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اب آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیںٕ تو اِن ممالک کو بھی فوری اپنے وعدے پر عمل کرنا چاہیئے اور امداد کے ساتھ ساتھ مصر کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بڑھانے چاہئیں۔
اُدھر، اِسی اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے جِس میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا میں خود کو آگ لگاکر ہلاک کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
تیونس میں ایک سبزی فروش کی خود سوزی نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جِس نے پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تاہم، حالات سے تنگ آکر خودسوزی کے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں۔
بدھ کو مراقش میں پانچ نوجوانوں نے خود کو آگ لگا دی اور اِسی ماہ تیونس، اردن اور بحرین میں بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔