واشنگٹن —
ایک کہنہ مشق سابق امریکی سفارت کار، نکولس برنز ’بوسٹن گلوب‘ میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ آج کل ایسا لگ رہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں صدر اوباما کی قیادت کڑی تنقید کی شکار ہے، اور یہ تنقید روایتی حلقوں، مثلاً روس یا چین سے نہیں بلکہ امریکہ کے بعض بہترین دوستوں کی جانب سے ہو رہی ہے۔
برنز یاد دلاتے ہیں کہ پچھلے سال جب اوباما دوبارہ صدر منتخب ہوئے، تو امریکی دوستوں کی طرف ایسی کوئی تنقید نہیں تھی، بلکہ اُن کی بالعموم کامیاب خارجہ حکمت عملی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب جو تنقید ہو رہی ہے کیا اُس کی وجہ مشرق وسطیٰ میں آنے والے انقلابات کی ناکامی ہے، یا ایک عبوری دور سے گذرنے والا غیریقینی یورپ ہے۔
برنز کہتے ہیں، یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اپنے دور حکومت کے پہلے پانچ سال میں صدر اوباما نے عالمی سطح پر بڑے کارنامے سرانجام دئے ہیں۔ اُنہوں نےعراق کے بارے میں اپنا انتخابی وعدہ پورا کرکے دکھایا۔ اور آنے والے موسم گرما میں افغانستان سے بھی بیشتر فوجیں واپس لے آئیں گے، لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کی بدولت، انسانوں کے قتل ِعام کو روکا گیا۔ اوباما نے القاعدہ کے خلاف ایک موثّر اور انتھک جنگ برقرار رکھی ہے، جس کا نقطہٴعروج اوسامہ بن لادِن کا خاتمہ تھا۔ اور ان کا سب سے اہم صدارتی کارنامہ وہ نئی حکمت عملی تھی، جس کے تحت آنے والے عشروں کے دوران ایشیا، امریکہ کی ترجیح ہوگا۔
البتہ، امریکہ کے پُرانے دوستوں میں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، اب یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ امریکہ اپنے روائتی قائدانہ کردار سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے مداوے کی کوششوں میں اور مصر کی فوجی حکومت کے ساتھ تعلقات میں ہچکچاہٹ کو اس تاثّر کی وجہ ٹھہراتے ہوئے، نکولس برنز نے صدر اوباما کو مشورہ دیا ہے کہ وُہ اُنہیں دنیائے عرب کے ناکام انقلابوں کے ستائے ہوئے عوام کو سہارا دینے کے لئے کوئی عظیم پروگرام شروع کرنا چاہئے۔ اور انہیں ایران کے معاملے میں کامیابی ہونی چاہئے۔امریکہ کے اعتبار اور قائدانہ کردار کی بحالی کو سب سے زیادہ تقویت ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے سے مل سکتی ہے اور ان کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کو ، قول اور فعل سے اپنے دیرینہ دوستوں، مثلاًسعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اُردن اور لبنان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے۔ اور یہی پیغام وزیر خارجہ جان کیری کے وسط مشرق کے رواں دورے اور اسرائیلی فلسطینی امن کے لئے ان کی قابل قدر کوششوں کے پیچھے کارفرما ہے۔
اخبار ’کالا راڈو نیوز ڈے‘ میں ایسو سی ایٹد پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، سوٹزر لینڈ کے سائینس دانوں نے فلسطینی لیڈر، یاسر عرفات کے روضے سے جمع کئے ہوئے زمین اور ہڈّیوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اور وُہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اُن کی موت تابکار پولونیم 210 کے زہر کی وجہ سے واقع ہوئی تھی۔
بعض ماہرین، جن کا اس رپورٹ سے تعلّق نہیں ہے، کہتے ہیں کہ رپورٹ سے اس دعوے کو تقویت پہنچتی ہے کہ یاسر عرفات کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا، جب وُہ پیرس میں زیر علاج تھے۔
عرفات کی بیوہ سُوحا عرفات نے شاک اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ’الجزیرہ ٹی وی‘ کو بتایا کہ ایک عظیم لیڈر کو راستے سے ہٹانے کا یہ مذمُوم طریقہ ہے۔ اور اُنہوں نے اصل مجرم کا سُراغ لگانے کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے اسرائیل کا نام تو نہیں لیا، لیکن کہا کہ ان کے شوہر کو ہلاک کرنے میں صرف ایسا ملک ملوّث ہو سکتا ہے جس کے پاس جوہری صلاحیت ہو۔ فلسطینی عہدہ دار عرصے سے اسرائیل پر عرفات کو زہر دینے کا الزام دیتے آئے ہیں۔ لیکن، اسرائیل اس کی تردید کرتا ہے۔
’لاس ویگس سن‘ اخبار عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے دورہٴ واشنگٹن پر کہتا ہے کہ صدر اوباما سمیت بیشتر امریکی عراق کی جنگ بُھلا دینا چاہتے ہیں، اور سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کے ارکان نے صدر کے نام پچھلے ہفتے ایک خط میں کہا تھا کہ نوری المالکی نے ملک میں جو فرقہ وارانہ سیاست کی ہے، اُس کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضاٴ وہاں القاعدہ تنطیم نے پھر جڑ پکڑ لی ہے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے، یہ سوچنا احمقانہ پن ہوگا کہ عراق کے مسائیل کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ، القاعدہ محض عراق کا نہیں بلکہ امریکہ کا بھی مسلہ ہے۔
اخبار نے سفیر کراکر کی اس بات سے پورا اتّفاق کیا ہے کہ امریکہ کو عراق میں فرقہ وارانہ تناؤ کو دور کرنے اور اُس کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد دینی چاہئے۔ اور عجب بات یہ ہے کہ عراق اب بھی امریکہ کا مضبوط ترین عرب اتّحادی بن سکتا ہے۔
برنز یاد دلاتے ہیں کہ پچھلے سال جب اوباما دوبارہ صدر منتخب ہوئے، تو امریکی دوستوں کی طرف ایسی کوئی تنقید نہیں تھی، بلکہ اُن کی بالعموم کامیاب خارجہ حکمت عملی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب جو تنقید ہو رہی ہے کیا اُس کی وجہ مشرق وسطیٰ میں آنے والے انقلابات کی ناکامی ہے، یا ایک عبوری دور سے گذرنے والا غیریقینی یورپ ہے۔
برنز کہتے ہیں، یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اپنے دور حکومت کے پہلے پانچ سال میں صدر اوباما نے عالمی سطح پر بڑے کارنامے سرانجام دئے ہیں۔ اُنہوں نےعراق کے بارے میں اپنا انتخابی وعدہ پورا کرکے دکھایا۔ اور آنے والے موسم گرما میں افغانستان سے بھی بیشتر فوجیں واپس لے آئیں گے، لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کی بدولت، انسانوں کے قتل ِعام کو روکا گیا۔ اوباما نے القاعدہ کے خلاف ایک موثّر اور انتھک جنگ برقرار رکھی ہے، جس کا نقطہٴعروج اوسامہ بن لادِن کا خاتمہ تھا۔ اور ان کا سب سے اہم صدارتی کارنامہ وہ نئی حکمت عملی تھی، جس کے تحت آنے والے عشروں کے دوران ایشیا، امریکہ کی ترجیح ہوگا۔
البتہ، امریکہ کے پُرانے دوستوں میں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، اب یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ امریکہ اپنے روائتی قائدانہ کردار سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے مداوے کی کوششوں میں اور مصر کی فوجی حکومت کے ساتھ تعلقات میں ہچکچاہٹ کو اس تاثّر کی وجہ ٹھہراتے ہوئے، نکولس برنز نے صدر اوباما کو مشورہ دیا ہے کہ وُہ اُنہیں دنیائے عرب کے ناکام انقلابوں کے ستائے ہوئے عوام کو سہارا دینے کے لئے کوئی عظیم پروگرام شروع کرنا چاہئے۔ اور انہیں ایران کے معاملے میں کامیابی ہونی چاہئے۔امریکہ کے اعتبار اور قائدانہ کردار کی بحالی کو سب سے زیادہ تقویت ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے سے مل سکتی ہے اور ان کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کو ، قول اور فعل سے اپنے دیرینہ دوستوں، مثلاًسعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اُردن اور لبنان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے۔ اور یہی پیغام وزیر خارجہ جان کیری کے وسط مشرق کے رواں دورے اور اسرائیلی فلسطینی امن کے لئے ان کی قابل قدر کوششوں کے پیچھے کارفرما ہے۔
اخبار ’کالا راڈو نیوز ڈے‘ میں ایسو سی ایٹد پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، سوٹزر لینڈ کے سائینس دانوں نے فلسطینی لیڈر، یاسر عرفات کے روضے سے جمع کئے ہوئے زمین اور ہڈّیوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اور وُہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اُن کی موت تابکار پولونیم 210 کے زہر کی وجہ سے واقع ہوئی تھی۔
بعض ماہرین، جن کا اس رپورٹ سے تعلّق نہیں ہے، کہتے ہیں کہ رپورٹ سے اس دعوے کو تقویت پہنچتی ہے کہ یاسر عرفات کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا، جب وُہ پیرس میں زیر علاج تھے۔
عرفات کی بیوہ سُوحا عرفات نے شاک اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ’الجزیرہ ٹی وی‘ کو بتایا کہ ایک عظیم لیڈر کو راستے سے ہٹانے کا یہ مذمُوم طریقہ ہے۔ اور اُنہوں نے اصل مجرم کا سُراغ لگانے کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے اسرائیل کا نام تو نہیں لیا، لیکن کہا کہ ان کے شوہر کو ہلاک کرنے میں صرف ایسا ملک ملوّث ہو سکتا ہے جس کے پاس جوہری صلاحیت ہو۔ فلسطینی عہدہ دار عرصے سے اسرائیل پر عرفات کو زہر دینے کا الزام دیتے آئے ہیں۔ لیکن، اسرائیل اس کی تردید کرتا ہے۔
’لاس ویگس سن‘ اخبار عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے دورہٴ واشنگٹن پر کہتا ہے کہ صدر اوباما سمیت بیشتر امریکی عراق کی جنگ بُھلا دینا چاہتے ہیں، اور سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کے ارکان نے صدر کے نام پچھلے ہفتے ایک خط میں کہا تھا کہ نوری المالکی نے ملک میں جو فرقہ وارانہ سیاست کی ہے، اُس کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضاٴ وہاں القاعدہ تنطیم نے پھر جڑ پکڑ لی ہے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے، یہ سوچنا احمقانہ پن ہوگا کہ عراق کے مسائیل کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ، القاعدہ محض عراق کا نہیں بلکہ امریکہ کا بھی مسلہ ہے۔
اخبار نے سفیر کراکر کی اس بات سے پورا اتّفاق کیا ہے کہ امریکہ کو عراق میں فرقہ وارانہ تناؤ کو دور کرنے اور اُس کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد دینی چاہئے۔ اور عجب بات یہ ہے کہ عراق اب بھی امریکہ کا مضبوط ترین عرب اتّحادی بن سکتا ہے۔