رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: میننگ کی گواہی


آرمی پرئیویٹ بریڈلے میننگ، درمیان میں، عدالت میں پیشی کے دوران
آرمی پرئیویٹ بریڈلے میننگ، درمیان میں، عدالت میں پیشی کے دوران

امریکی فوجی بریڈلی میننگ نے ایک فوجی عدالت میں خُفیہ معلومات کا غلط استعمال کرنے کے دس الزامات کا اعترافِ جُرم کرلیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اُس نے فوج کےخُفیہ اعداد و شُمار سے بلا اجازت معلومات حاصل کرکے اُن کی جانتے بُوجھتے ہُوئے تشہیر کی

شفافیت کی حامی ایک تنظیم نےامریکی فوجی بریڈلی میننگ کے 32 صفحات پر مشتمل اُس گواہی کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کردی ہے جِس میں وضاحت کی گئی ہے کہ اُس نے کِس بنا پر امریکی حکومت کی ہزاروں خُفیہ دستاویزیں، وِکی لِیکس کی ویب سائٹ کو فراہم کیں۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ کے مطابق دسمبر میں سرگرم کارکنوں اور صحافیوں نے’فریڈم آف دی پریس فونڈیشن‘ نامی منافع نہ لینے والا ادارہ قائم کیا، جِس نے یہ آڈیو جاری کی ہے۔

25 سالہ امریکی فوجی بریڈلی میننگ نے ایک فوجی عدالت میں خُفیہ معلومات کا غلط استعمال کرنے کے دس الزامات کا اعترافِ جُرم کرلیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اُس نے فوج کے خُفیہ اعدادو شُمار سےبلا اجازت معلومات حاصل کرکے اُن کی جانتے بُوجھتے ہُوئے تشہیر کی۔جِس بنا پر، اخبار کہتا ہے، میننگ کو 20 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے اور اُسے بےعزّت کر کے فوج سے خارج کیا جا سکتا ہے ۔

اِس کے علاوہ، میننگ کو فوج کی طرف سے اِس سے بھی زیادہ سنگین الزامات کا سامنا ہےجِن میں دُشمن کو امداد بہم پہنچانا شامل ہے۔ اُس کی فراہم کردہ معلومات اُسامہ بن لادن کے ہاتھ بھی آئیں، اورذرائع ابلاغ کے ذریعے دُنیا بھر میں وسیع امریکی انٹلی جنس کے بارے میں معلومات کی تشہیر ہوئی ۔

لیکن، ’ فریڈم آف دی پریس فونڈیشن‘ نے ایک بیان میں میننگ کی گواہی کی ریکارڈنگ کو جاری کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اُسے اِس بات پر تشویش ہے کہ مقدّمے سے قبل کی سماعتیں حکومت کی طرف سے انتہا درجے کی راز داری برتنے کی وجہ سے روکاوٹ کا شکار رہی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ریکارڈنگ کو جاری کرنے کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما ہے کہ اس دور کے سب سے زیادہ راز فاش کرنے والے فرد کی آواز دنیا بھر میں سُنی جا سکے۔ اس ادارے کے ایک شریک بانی ڈینیل ایلس برگ نے کہا ہے کہ اُنہیں نہیں معلوم کہ یہ ریکارڈنگ کس نے کی ہے۔ لیکن، جس نے بھی کی ہے اُس نے امریکی عوام کی بھاری خدمت سرانجام دی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوج نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ وُہ یہ بات یقینی بنائے گی کہ میننگ کا مقدّمہ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہو۔

صدار اوبامہ اگلے ہفتے اسرائیل اور مغربی کنارے کے دورے پر جا رہے ہیں، جِس پر ’ نیو یارک ٹائمز ‘ کے معروف تجزیہ کار ٹام فریڈ مان کہتے ہیں کہ اس دورے سے کوئی توقّعات نہیں وابستہ کی جارہیں، جس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس کا امکان ہی نہیں ہے، بلکہ ایک طرح سے یہ بھی کہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی۔ اور اگرچہ اس کا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے، اسرائیلی فلسطینی تنازعہ امریکی سفارت کاروں کے لئے اب محض ایک عادت ثانیہ بن چُکا ہے، حالانکہ، امریکہ کے لئےاسرائیلی فلسطینی امن کا حصول کبھی اتنا ضروری نہیں تھا، جتنا اب ہے۔

لیکن، اِس کی راہ میں اب بڑی روکاوٹیں حائل ہو گئی ہیں۔ ایک طرف اسرائیل نے تین لاکھ آباد کاروں کو مغربی کنارے پر بسا دیا ہے اور دوسری طرف اسرائیل پر غزّہ کی پٹّی سے داغے جانے والے حمّاس کے راکیٹوں کی وجہ سے خاموش اسرائیلی اکثریت اب مغربی کنارے کو خالی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہی۔ فریڈمان کہتے ہیں کہ ان وجوہات کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مسٹر اوبامہ سیّاح کی حیثیت اسرائیل جانے والے پہلے برسر اقتدار صدر ہونگے۔

’شکاگو ٹربیون‘ کہتا ہے کہ بغیر پائلٹ کے دُور سے چلائے جانے والے ڈرون طیّارے جنوبی ایشیا میں دہشت گرد دُشمنوں کے خلاف جنگ میں بڑے کارگر ثابت ہوئے ہیں ۔ لبیا میں مداخلت کاری میں اُن کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اور چُونکہ قانون کے نفاذ کے لئے بھی اُن کا استعمال موثّر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے، امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے اُنہیں ملک کی جنوبی سرحدوں پر بھی استعمال کیا ہے ، تاکہ ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے لوگوں کا سُراغ لگایا جا سکے۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈرون طیارے سائز میں بُہت چھوٹے ہوتے ہیں ، اُن پر لاگت کم آتی ہے اور جو کارنامے اُن کی مدد سے کئے جاتے ہیں، اُن کا ذکر پہلے صرف سائینس کے قصّے کہانیوں میں ملتا تھا ۔ لیکن، اُن کا وجود اب دائمی ہو گیا ہے۔ ڈرون طیاروں کی تخلیق دورِجدید کی ٹیکنالوجی کی نہائت ہی اہم ایجادات میں شمار ہوتا ہے۔ الغرض، ڈرون بلا شُبہ مُستقبل کا ایک بڑا حصّہ ہوگا۔
XS
SM
MD
LG