شام پر اس وقت جو مباحثہ جاری ہے اُس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے متعلق ایک اور کلیدی فیصلے میں ابہام پیدا ہوگیا ہے، جو صدر اوبامہ اور کانگریس کو جلد طے کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی، یہ طے کرنا کہ آیا فوج کی طاقت سے قائم جو حکومت مصر میں اپنا تسلّط مضبوط کرتی جارہی ہے۔ اُس کی امداد جاری رکھنی چاہئے یا نہیں۔
دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جب سُراغ ملا تھا، تو اخبار کی اطلاع کے مطابق، اُس وقت امریکی انتظامیہ کا ایک پالیسی ریویو مکمل ہونے کے قریب تھا جس میں ایک یہ رائے شامل تھی کہ مصر کی مسلّح افواج کو ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی جو سالانہ امریکی امداد ملتی ہے، اس میں یا تو بھاری کٹوتی کی جائے یا پھر اُسے سرے سے ختم ہی کیا جائے۔
وہایٹ ہاؤس نے اخبار کو بتایا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ امداد سرے سے بند کر دی جائے یا جس امداد کا پہلے وعدہ کیا جا چکا ہے، اس کے بعد مزید امداد بند کر دی جائے۔ اور جس کے مطابق، ایف 16 جنگی طیاروں کی ترسیل میں تاخیر کی جارہی ہے، اور ایک جنگی مشق منسوخ کر دی گئی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کی صدر اوبامہ کے ہاتھ اس نئے بُحران کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود، ضروری ہے کہ وہ جلد کوئی قدم اُٹھا ئیں جس دوران واشنگٹن کی توجّہ شام پر مرکوز رہے۔ جنرل عبدالفتح السی سی کے حکومت ملک میں ایک ایسی آمرانہ حکومت کی تعمیر کرتی رہی جس کی وجہ سے مصر کا 2011 ءکے انقلاب اور جمہوریت کی جانب اس کی پیشرفت کا رُخ پلٹ دیا گیا ہے۔
ابھی پچھلے ایک ہفتے دوران حکومت نے اخوان المسلمین کی سرکردہ شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کی ایذا رسانی کا سلسلہ جاری رکھا ہے، ان میں جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر محمد مُرسی شامل ہیں، جنہیں 3 جُولائی کے فوجی انقلاب میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ درجنوں افراد کا فوجی عدالتوں میں مقدّمہ چلا کر اُنہیں اُن ہنگامی قوانین کے تحت سزائیں سنائی گئی ہیں جن کے سہارے سابق آمر حسنی مبارک کی حکومت چلتی تھی۔ خود مسٹر مُرسی پر قتل کی فرد جُرم عاید کی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ حکّام اخوان المسلمین جماعت کو باقاعدہ طور پر غیر قانونی جماعت قرار دینے کے لئے قدم اٹھا رہے ہیں۔۔
مذہبی تشخص والی سیاسی جماعتوں کو سیاسی نظام سے خارج کیا جارہا ہے، اور مبارک دور کا وہ انتخابی نظام پھر سے مروج کیا جا رہا ہے جو مخالف جماعتوں کےخلاف استعمال ہوتا تھا۔
یہ تمام اقدامات اگلے سال کے اُن انتخابات کو مذاق بنا دیں گے جس کا حکومت نے وعدہ کر رکھا ہے۔ حکومت نے تین ٹیلی وژن نیٹ ورکس کو بند کر دیا اور ایک وقت کے متنوّع پریس کو حکومت کی لائن چلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ حکومت پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ اسلام پسندوں کے ساتھ صلح کرے مسٹر مُرسی اور دوسرے لیڈروں کو رہا کرے اور خالص جمہوریت کی راہ اختیار کرے۔ لیکن، ان اپیلوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ بلکہ، امریکہ کے خلاف مذموم قسم کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔۔ اس کے معنی، اخبار کی نظر میں یہ ہوتے ہیں کہ امریکہ کو امداد بند کرنے کا حربہ استعمال کرنا چاہئے اور صرف جمہوریت کی بحالی کی شرط پر اسے بحال کیا جائے۔
اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ نے کانگریس کے دونوں ایوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شام کے خلاف فوجی کاراوائی کرنے کی منظوری دیں۔
ایک ادارئے میں، اخبار کہتا ہے کہ اب جب صدر اوبامہ نے یہ منظوری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ارکان کانگریس کو چاہئے کہ وہ صحیح سوال پوچھیں اور شامی حکمت کی ذمّہ داری کے بارے میں زیادہ انکشافات حاصل کرنے کے بعد قرارداد منظور کریں۔ لیکن اس میں محمکمہٴدفاع کو کھلی چھٹی بھی نہ دیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ویت نام کی جنگ کےدور سے کئی عشروں تک ناقدین کو یہ شکائت رہی ہے کہ کانگریس کے ارکان کو جنگ کا اعلان کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، امریکی صدور اُسے نظر انداز کرتے آئے ہی۔ اور انہوں نے ملک سے باہر امریکی فوج کو استعمال کیا ہے۔ ایک تازہ مثال سنہ 2011 کے دوران لبیا پر حملے کی ہے جو کانگریس سے ووٹ لئے بغیر کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کو اب بھی یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ امریکہ کو کب فوجی طاقت کا استعمال کرنا چاہئے۔ چنانچہ، اس کے لئے پارٹی بازی کی اُس سیاست سے احتراز کرنا ہوگا جس کی وجہ سے واشنگٹن کے اندر اتنی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ وہایٹ ہاؤس کی تجویز کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جس طرح مسلح افواج کا استعمال کرنا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہونی چاہئے۔
لیکن، اخبار کے خیال میں، یہ اختیار بہت زیادہ وسیع ہوگا اور کانگریس کو اصرار کرنا چاہئے کہ پیدل فوج بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جو بھی فوجی کاروائی کی جائے ، وہ محدود نوعیت کی ہو اور کم مدت کی ہو۔
اور آخر میں اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ کی یہ خبر کہ ہیلی کاپٹر کھلونے کے ایک انیس سالہ شائق لڑکے کو یہ شوق مہنگا پڑا، جب برکلِن، نیو یارک میں ریموٹ کنٹرول سے چلنے والا اُس کا ہیلی کاپٹر فضا سے اچانک زمین کی طرف آیا تو اُس کے روٹر بلیڈوں سے اس کے سر اور حلق کو سنگین چوٹیں آئیں، جو اس کی افسوسناک موت کا باعث بنیں۔
دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جب سُراغ ملا تھا، تو اخبار کی اطلاع کے مطابق، اُس وقت امریکی انتظامیہ کا ایک پالیسی ریویو مکمل ہونے کے قریب تھا جس میں ایک یہ رائے شامل تھی کہ مصر کی مسلّح افواج کو ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی جو سالانہ امریکی امداد ملتی ہے، اس میں یا تو بھاری کٹوتی کی جائے یا پھر اُسے سرے سے ختم ہی کیا جائے۔
وہایٹ ہاؤس نے اخبار کو بتایا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ امداد سرے سے بند کر دی جائے یا جس امداد کا پہلے وعدہ کیا جا چکا ہے، اس کے بعد مزید امداد بند کر دی جائے۔ اور جس کے مطابق، ایف 16 جنگی طیاروں کی ترسیل میں تاخیر کی جارہی ہے، اور ایک جنگی مشق منسوخ کر دی گئی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کی صدر اوبامہ کے ہاتھ اس نئے بُحران کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود، ضروری ہے کہ وہ جلد کوئی قدم اُٹھا ئیں جس دوران واشنگٹن کی توجّہ شام پر مرکوز رہے۔ جنرل عبدالفتح السی سی کے حکومت ملک میں ایک ایسی آمرانہ حکومت کی تعمیر کرتی رہی جس کی وجہ سے مصر کا 2011 ءکے انقلاب اور جمہوریت کی جانب اس کی پیشرفت کا رُخ پلٹ دیا گیا ہے۔
ابھی پچھلے ایک ہفتے دوران حکومت نے اخوان المسلمین کی سرکردہ شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کی ایذا رسانی کا سلسلہ جاری رکھا ہے، ان میں جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر محمد مُرسی شامل ہیں، جنہیں 3 جُولائی کے فوجی انقلاب میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ درجنوں افراد کا فوجی عدالتوں میں مقدّمہ چلا کر اُنہیں اُن ہنگامی قوانین کے تحت سزائیں سنائی گئی ہیں جن کے سہارے سابق آمر حسنی مبارک کی حکومت چلتی تھی۔ خود مسٹر مُرسی پر قتل کی فرد جُرم عاید کی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ حکّام اخوان المسلمین جماعت کو باقاعدہ طور پر غیر قانونی جماعت قرار دینے کے لئے قدم اٹھا رہے ہیں۔۔
مذہبی تشخص والی سیاسی جماعتوں کو سیاسی نظام سے خارج کیا جارہا ہے، اور مبارک دور کا وہ انتخابی نظام پھر سے مروج کیا جا رہا ہے جو مخالف جماعتوں کےخلاف استعمال ہوتا تھا۔
یہ تمام اقدامات اگلے سال کے اُن انتخابات کو مذاق بنا دیں گے جس کا حکومت نے وعدہ کر رکھا ہے۔ حکومت نے تین ٹیلی وژن نیٹ ورکس کو بند کر دیا اور ایک وقت کے متنوّع پریس کو حکومت کی لائن چلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ حکومت پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ اسلام پسندوں کے ساتھ صلح کرے مسٹر مُرسی اور دوسرے لیڈروں کو رہا کرے اور خالص جمہوریت کی راہ اختیار کرے۔ لیکن، ان اپیلوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ بلکہ، امریکہ کے خلاف مذموم قسم کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔۔ اس کے معنی، اخبار کی نظر میں یہ ہوتے ہیں کہ امریکہ کو امداد بند کرنے کا حربہ استعمال کرنا چاہئے اور صرف جمہوریت کی بحالی کی شرط پر اسے بحال کیا جائے۔
اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ نے کانگریس کے دونوں ایوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شام کے خلاف فوجی کاراوائی کرنے کی منظوری دیں۔
ایک ادارئے میں، اخبار کہتا ہے کہ اب جب صدر اوبامہ نے یہ منظوری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ارکان کانگریس کو چاہئے کہ وہ صحیح سوال پوچھیں اور شامی حکمت کی ذمّہ داری کے بارے میں زیادہ انکشافات حاصل کرنے کے بعد قرارداد منظور کریں۔ لیکن اس میں محمکمہٴدفاع کو کھلی چھٹی بھی نہ دیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ویت نام کی جنگ کےدور سے کئی عشروں تک ناقدین کو یہ شکائت رہی ہے کہ کانگریس کے ارکان کو جنگ کا اعلان کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، امریکی صدور اُسے نظر انداز کرتے آئے ہی۔ اور انہوں نے ملک سے باہر امریکی فوج کو استعمال کیا ہے۔ ایک تازہ مثال سنہ 2011 کے دوران لبیا پر حملے کی ہے جو کانگریس سے ووٹ لئے بغیر کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کو اب بھی یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ امریکہ کو کب فوجی طاقت کا استعمال کرنا چاہئے۔ چنانچہ، اس کے لئے پارٹی بازی کی اُس سیاست سے احتراز کرنا ہوگا جس کی وجہ سے واشنگٹن کے اندر اتنی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ وہایٹ ہاؤس کی تجویز کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جس طرح مسلح افواج کا استعمال کرنا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہونی چاہئے۔
لیکن، اخبار کے خیال میں، یہ اختیار بہت زیادہ وسیع ہوگا اور کانگریس کو اصرار کرنا چاہئے کہ پیدل فوج بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جو بھی فوجی کاروائی کی جائے ، وہ محدود نوعیت کی ہو اور کم مدت کی ہو۔
اور آخر میں اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ کی یہ خبر کہ ہیلی کاپٹر کھلونے کے ایک انیس سالہ شائق لڑکے کو یہ شوق مہنگا پڑا، جب برکلِن، نیو یارک میں ریموٹ کنٹرول سے چلنے والا اُس کا ہیلی کاپٹر فضا سے اچانک زمین کی طرف آیا تو اُس کے روٹر بلیڈوں سے اس کے سر اور حلق کو سنگین چوٹیں آئیں، جو اس کی افسوسناک موت کا باعث بنیں۔