واشنگٹن —
صدر اوبامہ نے ملک کی عمومی صورت حال پر کانگریس سے جو خطاب کیا تھا، اُس میں ’شکاگو ٹربیون‘ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ انہوں نے افغانستان کی جنگ کے بارے میں ’سرسری سا ذکر کیا‘، اور ’پاکستان کا سرے سے نام ہی نہیں لیا، جہاں طالبان دہشت گرد پھر حملے کر رہے ہیں۔ لیکن، اخبار کو اس پر گوئی گلہ نہیں۔
اور، اخبار یاد دلاتا ہے کہ پچھلے سال نومبر میں ایک امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ یہ وہی طالبان لیڈر ہے، جس کے نیٹ ورک پر، خود کُش بمباروں کے ذریعے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام آتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان پر اس کاری ضرب نے پاکستانی لیڈروں کے لئے ایک نادر موقع پیدا کردیا تھا کہ وُہ آستینیں چڑھا کرسال ہا سال سے جاری اس جنگ میں جارحانہ کاروائی شروع کرتے۔ لیکن، اخبار کے بقول، ہوا اس کے برعکس۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں بند کرا دیں اور بغاوت کو ختم کرانے کے خیال سے کسی سمجھوتے کے لئے مذاکرات کو ترجیح دی، اور اس طرح، طالبان کے نئے لیڈر مولانا فضل اللہ کو طالبان کے مختلف دھڑوں پر اپنی قیادت کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کیا۔
’امید یہ تھی کہ اس طرح، وہ زیادہ سیاسی قوّت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے گا۔ حالانکہ، پچھلے ایک عشرے کے دوران، اس قسم کی جنگ بندیاں بار بار ناکام ہو چُکی ہیں۔ اور فضل اللہ نے اس موقع کو اپنی قوتیں مجتمع کرنے اور مزید ہتھیاربندی کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اور حالیہ ہفتوں میں اُس نے تین بڑے شہروں میں نئے حملے کئے ہیں، اور بیسیوں شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ ان میں پاکستانی معیشت کی شہ رگ کراچی بھی شامل ہے،جہاں مرنے والوں میں انسداد دہشت گردی کا ایک اعلیٰ افسر شامل تھا۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران، نواز شریف نے طالبان کو نظرانداز کیا تھا۔ اور مقتدر امریکی سیاسی اور سٹریٹیجک ماہر، انتھونی کور دیز من کی نظر میں اُن کا پیغام یہ تھا کہ امریکہ کے ساتھ محدود نوعیت کا تعاون کیا جائے گا۔ اور بقول اخبار کے، اس سے جانے پہچانے مایوس کن نتائج برآمد ہوئے۔ اور پاکستان کے سابقہ لیڈروں کی طرح نواز شریف نے بھی سبق سیکھ لیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کرنے یا اقتدار میں شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ وُہ دہشت گرد ہیں، جو شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، اور جنہیں شکست دینا ضروری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا اس طرح سر اُٹھانا پڑوسی افغانستان کے لئے ایک خطرہ ہے، جہاں سے بیشتر امریکی فوجیں اس سال کے اواخر تک انخلاٴ کرنے والی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی برابر اُس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں جس کے تحت دس ہزار امریکی فوجی اس سال کے بعد بھی وہاں متعیّن رہیں گے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ نئے صدر کا انتخاب لڑنے والے بڑے بڑے امیدوار کہہ چُکے ہیں کہ وُہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ، ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے ابھی کافی وقت ہے، جس کے تحت، ایک مضبوط امریکی فورس افغانستان میں موجود رہے گی، کیونکہ انسداد دہشت گردی کے کام کے لئے اس کی موجودگی ابھی بھی ضروری ہے۔
نیو یارک میں قائم، حقوق انسانی کی ایک تنظیم، ’ہیومن رائیٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ عراقی حکّام نے ہزاروں خواتین کو غیر قانونی طور پر نظر بند کر رکھا ہے۔
اخبار ’شکاگو سن ٹائمز‘ کے مطابق، باوجودیکہ اصلاحات کا وعدہ کیا گیا تھا، ان میں سے بُہت سوں کو ازیّتیں پہنچائی گئی ہیں، اور اُن کو جنسی استحصال اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان لوگوں پر تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پس منظر میں عسکریت پسندوں کی وسیع پیمانے کی پکّڑدھکّڑ کی مہم کے دوران، حراست میں لیا گیا تھا۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق، ان خواتین کو مہینوں بلکہ برسوں تک کسی عدالت میں پیش کئے بغیر، حراست میں رکھا گیا ہے، اور بہتوں کو اس لئے پکڑا گیا تھا، کیونکہ، ان کے خاندانوں کے مردوں پر دہشت گرد کاروائیوں میں شرکت کرنے کا الزام تھا۔ اور جن قیدیوں کا انٹرویو کیا گیا، انہوں نے بیان کیا ہے کہ کس طرح سیکیورٹی فوجوں نے اُن کی ٹھوکروں اور تھپڑوں سے تواضُع کی اور جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔
اخبار نے اس ادارے کے ایک ماہر، جو سٹارک کے حوالے سے بتایاہے کہ عراقی سیکیورٹی کے اہل کاروں کے اس وطیر ے سے لگتا ہے کہ اُن کی دانست میں ان عورتوں پر مظالم توڑنے سے ملک محفوظ ہوجائے گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان عورتوں اور اُن کے عزیزوں نے ہمیں بتایا ہے کہ جب تک سیکیورٹی فوجیں لوگوں پر اسی طرح مظالم توڑتی رہیں گی، حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کو آج کل سخت خشک سالی کا سامنا ہے۔ ’کرسچن ساینس مانٹر‘ نے اسے تاریخ کی بدتریں خشک سالی قرار دیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے، تو اگلے 60 یا 100 دن میں، ریاست کے17 ضلعوں میں پانی سرے سے ناپید ہننے کا خطرہ ہے۔
پانی توانائی کا بھی ذریعہ ہے۔ اور صارفین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت پانی بچائیں، تاکہ کل کو انہیں بجلی میسّر ہو، کیلی فورنیا میں توانائی کا 15 فی صد پانی کا مرہون منت ہے۔ اور خشک سالی نے اس سال پانی کے سطح کو خطرناک حد تک کم کر دیا ہے۔
اور، اخبار یاد دلاتا ہے کہ پچھلے سال نومبر میں ایک امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ یہ وہی طالبان لیڈر ہے، جس کے نیٹ ورک پر، خود کُش بمباروں کے ذریعے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام آتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان پر اس کاری ضرب نے پاکستانی لیڈروں کے لئے ایک نادر موقع پیدا کردیا تھا کہ وُہ آستینیں چڑھا کرسال ہا سال سے جاری اس جنگ میں جارحانہ کاروائی شروع کرتے۔ لیکن، اخبار کے بقول، ہوا اس کے برعکس۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں بند کرا دیں اور بغاوت کو ختم کرانے کے خیال سے کسی سمجھوتے کے لئے مذاکرات کو ترجیح دی، اور اس طرح، طالبان کے نئے لیڈر مولانا فضل اللہ کو طالبان کے مختلف دھڑوں پر اپنی قیادت کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کیا۔
’امید یہ تھی کہ اس طرح، وہ زیادہ سیاسی قوّت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے گا۔ حالانکہ، پچھلے ایک عشرے کے دوران، اس قسم کی جنگ بندیاں بار بار ناکام ہو چُکی ہیں۔ اور فضل اللہ نے اس موقع کو اپنی قوتیں مجتمع کرنے اور مزید ہتھیاربندی کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اور حالیہ ہفتوں میں اُس نے تین بڑے شہروں میں نئے حملے کئے ہیں، اور بیسیوں شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ ان میں پاکستانی معیشت کی شہ رگ کراچی بھی شامل ہے،جہاں مرنے والوں میں انسداد دہشت گردی کا ایک اعلیٰ افسر شامل تھا۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران، نواز شریف نے طالبان کو نظرانداز کیا تھا۔ اور مقتدر امریکی سیاسی اور سٹریٹیجک ماہر، انتھونی کور دیز من کی نظر میں اُن کا پیغام یہ تھا کہ امریکہ کے ساتھ محدود نوعیت کا تعاون کیا جائے گا۔ اور بقول اخبار کے، اس سے جانے پہچانے مایوس کن نتائج برآمد ہوئے۔ اور پاکستان کے سابقہ لیڈروں کی طرح نواز شریف نے بھی سبق سیکھ لیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کرنے یا اقتدار میں شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ وُہ دہشت گرد ہیں، جو شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، اور جنہیں شکست دینا ضروری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا اس طرح سر اُٹھانا پڑوسی افغانستان کے لئے ایک خطرہ ہے، جہاں سے بیشتر امریکی فوجیں اس سال کے اواخر تک انخلاٴ کرنے والی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی برابر اُس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں جس کے تحت دس ہزار امریکی فوجی اس سال کے بعد بھی وہاں متعیّن رہیں گے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ نئے صدر کا انتخاب لڑنے والے بڑے بڑے امیدوار کہہ چُکے ہیں کہ وُہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ، ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے ابھی کافی وقت ہے، جس کے تحت، ایک مضبوط امریکی فورس افغانستان میں موجود رہے گی، کیونکہ انسداد دہشت گردی کے کام کے لئے اس کی موجودگی ابھی بھی ضروری ہے۔
نیو یارک میں قائم، حقوق انسانی کی ایک تنظیم، ’ہیومن رائیٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ عراقی حکّام نے ہزاروں خواتین کو غیر قانونی طور پر نظر بند کر رکھا ہے۔
اخبار ’شکاگو سن ٹائمز‘ کے مطابق، باوجودیکہ اصلاحات کا وعدہ کیا گیا تھا، ان میں سے بُہت سوں کو ازیّتیں پہنچائی گئی ہیں، اور اُن کو جنسی استحصال اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان لوگوں پر تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پس منظر میں عسکریت پسندوں کی وسیع پیمانے کی پکّڑدھکّڑ کی مہم کے دوران، حراست میں لیا گیا تھا۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق، ان خواتین کو مہینوں بلکہ برسوں تک کسی عدالت میں پیش کئے بغیر، حراست میں رکھا گیا ہے، اور بہتوں کو اس لئے پکڑا گیا تھا، کیونکہ، ان کے خاندانوں کے مردوں پر دہشت گرد کاروائیوں میں شرکت کرنے کا الزام تھا۔ اور جن قیدیوں کا انٹرویو کیا گیا، انہوں نے بیان کیا ہے کہ کس طرح سیکیورٹی فوجوں نے اُن کی ٹھوکروں اور تھپڑوں سے تواضُع کی اور جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔
اخبار نے اس ادارے کے ایک ماہر، جو سٹارک کے حوالے سے بتایاہے کہ عراقی سیکیورٹی کے اہل کاروں کے اس وطیر ے سے لگتا ہے کہ اُن کی دانست میں ان عورتوں پر مظالم توڑنے سے ملک محفوظ ہوجائے گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان عورتوں اور اُن کے عزیزوں نے ہمیں بتایا ہے کہ جب تک سیکیورٹی فوجیں لوگوں پر اسی طرح مظالم توڑتی رہیں گی، حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کو آج کل سخت خشک سالی کا سامنا ہے۔ ’کرسچن ساینس مانٹر‘ نے اسے تاریخ کی بدتریں خشک سالی قرار دیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے، تو اگلے 60 یا 100 دن میں، ریاست کے17 ضلعوں میں پانی سرے سے ناپید ہننے کا خطرہ ہے۔
پانی توانائی کا بھی ذریعہ ہے۔ اور صارفین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت پانی بچائیں، تاکہ کل کو انہیں بجلی میسّر ہو، کیلی فورنیا میں توانائی کا 15 فی صد پانی کا مرہون منت ہے۔ اور خشک سالی نے اس سال پانی کے سطح کو خطرناک حد تک کم کر دیا ہے۔