امریکی حکام نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے تناظر میں ڈرون حملے نہ کرنے کی درخواست پر اوباما انتظامیہ نے پاکستان میں جاسوس طیاروں کی کارروائیوں میں قابل ذکر کمی کی ہے۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کی خبر کے مطابق ایک امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ "انھوں نے ایسا ہی کہا تھا اور ہم نے انھیں نا نہیں کہا۔"
لیکن اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اگر انھیں القاعدہ سینیئر کمانڈر نظر آئے تو امریکی شہریوں کو براہ راست خطرے کو روکنے کے لیے اُن کے خلاف اب بھی کارروائیاں کی جائیں گی۔
پاکستان میں گزشتہ دسمبر کے بعد سے اب تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا جو کہ 2011ء کے بعد ایسی کارروائیوں میں سب سے زیادہ وقفہ ہے۔
نومبر 2011ء میں قبائلی علاقے میں ایک چوکی پر امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے اور اس کے بعد تقریباً چھ ہفتوں تک ڈرون کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
اس حالیہ وقفے سے قبل یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک میں قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد طالبان نے نواز شریف انتظامیہ سے مجوزہ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں اوباما انتظامیہ نے پاکستانی حکومت کی طرف سے ملک کو درپیش بنیادی مسائل کے حل اور خطے میں امن کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے کام کیا۔
اخبار کے مطابق اوباما انتظامیہ کے ایک اور سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ "پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ کلی طور پر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔"
پاکستان کی حکومت نے گزشتہ ہفتے طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے بعد عسکریت پسندوں کی طرف سے اپنی طرف سے بات چیت کے لیے پانچ نام سامنے آئے۔ لیکن آُن میں سے دو نے مذاکراتی عمل میں شامل نا ہونے کا اعلان کیا۔
دونوں کمیٹیوں کے درمیان منگل کو پہلی باضابطہ ملاقات ہونا تھی جو سرکاری مذاکرات کاروں کی طرف سے طالبان کے نامزد کردہ شخصیات کے اختیارات سے متعلق تحفظات کے باعث نہ ہوسکی۔
دہشت گردی کے خلاف ایک دہائی سے جاری جنگ میں پاکستان ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب تک سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے 40 ہزار افراد اس میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے خصوصاً شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں نے مبینہ محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ امریکہ اور افغانستان کا ماننا ہے کہ یہ شدت پسند یہاں سے سرحد پار افغانستان میں اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں جنہیں نشانہ بنانے کے لیے بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان ڈرون حملوں کی اپنی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی بندش کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کی خبر کے مطابق ایک امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ "انھوں نے ایسا ہی کہا تھا اور ہم نے انھیں نا نہیں کہا۔"
لیکن اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اگر انھیں القاعدہ سینیئر کمانڈر نظر آئے تو امریکی شہریوں کو براہ راست خطرے کو روکنے کے لیے اُن کے خلاف اب بھی کارروائیاں کی جائیں گی۔
پاکستان میں گزشتہ دسمبر کے بعد سے اب تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا جو کہ 2011ء کے بعد ایسی کارروائیوں میں سب سے زیادہ وقفہ ہے۔
نومبر 2011ء میں قبائلی علاقے میں ایک چوکی پر امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے اور اس کے بعد تقریباً چھ ہفتوں تک ڈرون کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
اس حالیہ وقفے سے قبل یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک میں قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد طالبان نے نواز شریف انتظامیہ سے مجوزہ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں اوباما انتظامیہ نے پاکستانی حکومت کی طرف سے ملک کو درپیش بنیادی مسائل کے حل اور خطے میں امن کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے کام کیا۔
اخبار کے مطابق اوباما انتظامیہ کے ایک اور سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ "پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ کلی طور پر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔"
پاکستان کی حکومت نے گزشتہ ہفتے طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے بعد عسکریت پسندوں کی طرف سے اپنی طرف سے بات چیت کے لیے پانچ نام سامنے آئے۔ لیکن آُن میں سے دو نے مذاکراتی عمل میں شامل نا ہونے کا اعلان کیا۔
دونوں کمیٹیوں کے درمیان منگل کو پہلی باضابطہ ملاقات ہونا تھی جو سرکاری مذاکرات کاروں کی طرف سے طالبان کے نامزد کردہ شخصیات کے اختیارات سے متعلق تحفظات کے باعث نہ ہوسکی۔
دہشت گردی کے خلاف ایک دہائی سے جاری جنگ میں پاکستان ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب تک سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے 40 ہزار افراد اس میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے خصوصاً شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں نے مبینہ محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ امریکہ اور افغانستان کا ماننا ہے کہ یہ شدت پسند یہاں سے سرحد پار افغانستان میں اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں جنہیں نشانہ بنانے کے لیے بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان ڈرون حملوں کی اپنی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی بندش کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔