سی آئی اے کے ڈئریکٹر کے عہدے کے لئے جان برینن کی نامزدگی پر امریکی سینیٹ کی سماعت کے دوران اوبامہ انتظامیہ کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی کے بعض ایسے پہلؤ وں پر بحث ہوئی ہے، جو ’نیو یارک ٹائمز‘ کی نظر میں متنازع ہیں۔ اِن میں ایسے امریکی شہریوں کو ہلاک کرنا شامل ہے جن پر دہشت گرد ہونے کا الزام ہو۔
اخبار کے خیال میں جان برنن سے جو سوال کئے گئے وُہ سب صحیح نہیں تھے اور نامزد امیدوار کے جوابات اکثرو بیشتر غیر تسلّی بخش تھے۔ مثلاً، وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ واٹر بورڈنگ خالصتا ً اذیت رسانی کے زُمرے میں آتی ہے اور کسی کو اس پر تعجُّب نہ ہوا کہ وُہ نشانہ بنا کر امریکی شہریوں کو مثلاً انورالمالکی یا دوسرے ایسے ملزمو ں کو بغیر کسی نگرانی یا عدالتی چارہ جوئی کے ہلاک کرنے کے حامی ہیں۔
اخبار اِس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا کہ انتظامیہ کے پاس کسی محاذ جنگ سے ماورا، بلا نگرانی یا قانونی چارہ جوئی کے امریکیوں کو ہلاک کرنے کا اختیار ہے اور یہ کہ مسٹر برنن کا یہ دعویٰ کہ حکومت اُسی صورت یہ ہلاکت خیز طاقت استعمال کرتی ہےجب اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ ہو، ڈرون طیاروں کے بہت زیادہ استعمال کی اطلاعات کے برعکس ہے۔
اخبار نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جب مسٹر برننکے تقرر کی توثیق ہوجائے تو وُہ یہ نہیں بُھولیں گے کہ خطرہ کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو، اُس کی وجہ سے عاملہ کو نگرانی اور قانونی ضابطوں سے مبرّا نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اسی موضوع پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے تجزیہ نگار یوجین رابن سن اپنے کالم میں رقمطراز ہیں کہ اگر جارج بُش اپنے عہد میں بتاتے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بدولت اُنہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وُہ سمندرپار ایک امریکی شہری کو ڈرون طیارے سے چلائے گئے ایک مزائیل کی مدد سے عدالتی لوازمات کی پرواہ کئے بغیر ہلاک کریں، تو میں غُصّے سے پاگل ہو اتا، اور اب جب براک اوبامہ کی طرف سے اسی طرح کا افسوس ناک بیان آیا ہے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ، اخبار کے بقول، ’جو چیز غلط ہے، وُہ غلط ہے‘۔
ڈرون طیاروں کی مدد سے جنگ کا جو نیا باب شروع ہوا ہے، مضمون نگار کی نظر میں وہ ریموٹ کنٹرول سے قتل کرنے کے زُمرے میں آتا ہے،جس کی وجہ سے نہائت ہی تکلیف دِہ اخلاقی سوالوں نے جنم لیاہے، جن کا جواب تلاش کر نے کی ضرورت ہے، کیونکہ، انتظامیہ کے ایک ترجمان نے حال ہی میں اُنہیں بتایا تھا کہ القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری کشمکش میں ڈرون حملے انتظامیہ کا ایک نیا معمول بن گئے ہیں۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ڈرون طیاروں کی صلاحیت بڑھتی جائے گی، ویسے ویسے اُن مقاصد کی نوعیت میں اضافہ ہوتا جائے گا جن کے لئے اُنہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جیسے جیسے امریکہ کی طرف سے ان ڈرون طیاروں کی فوجی افادیت کا مظاہرہ ہوگا، تو دوسرے ملک بھی ایسے ہی طیاروں کے اپنے بیڑے تعمیر کرینگے۔
’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں یاد دلاتاہے کہ سنہ 2009 ء میں ایک امریکی ڈرون سے ایک مزائیل داغا گیا تھا جس نے بیت اللہ محسود کے خونیں کریئر کا خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ اس وقت پاکستان میں ایک مکان کی چھت پر کھڑا تھا۔ اس وقت وہ طالبان کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا مانا جاتا تھا۔ اور اخبار کے بقول، حماقت اُس نے یہ کی تھی کہ اُس نے چند منٹ کے لئے اپنا چہرہ دکھا دیا تھا جو اس کے بغیر ہواباز کے چلنے والے طیارے کے لئے شِست باندھنے کے لئے کافی تھا۔
اخبار کہتاہےکہ وہ یہ فاش غلطی کرنے والا آخری دہشت گرد نہیں ہوگا اور اب صدر اوبامہ بڑے جارحانہ اندز میں ان ڈرون حملوں کی امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی مساعی کے ایک اہم جُزو کےطور پر، وکالت کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے اُن کے پیش رو، جارج بُش کرتے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈرون سے چلائی جانے والی یہ مہم، پاکستان، افغانستان، یمن، اور افریقہ کے بعض علاقوں میں غیر معمولی حد تک موثّر ثابت ہوئی ہے۔ اور اس نے القاعدہ کی قیادت کی کمر توڑ دی ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ کانگریس کے ارکان سمیت بُہت سے لوگوں کو ان سے شہریوں کی جانیں ضائع ہونے کے خطرے اور اُن خفیہ قواعد پر تشویش ہے جو ڈرون چلانے والوں نے اپنے اہداف کے انتخاب کے لئے اپنا رکھے ہیں۔
اگرچہ، انتظامیہ کی طرف سے ایک یاداشت میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اعلیٰ سطح کا باخبر عہدہ دار طے کرتا ہے کہ جس دہشت گرد کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ہوتا ہے اُس کی طرف سے امریکہ پر حملہ ہونے سے پہلے ہی اُس کے خلاف کاروائی کی جائے اور وہ بھی اُس صورت میں کہ اس کو حراست میں لینا ممکن نہ ہو۔
اخبار نے اس کاروائی میں عدلیہ کی نگرانی شامل کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے لیکن کہا ہے کہ اس کی وجہ سے یہ خدشہ بھی ہے کہ محاذ جنگ پر فیصلہ کرتے وقت امریکی فوجی کی ایک نظر ججوں پر ہوگی۔
اخبار کہتا ہےکہ ایسے ڈرون چلانے والے کس کام کےجو یہ آس لگائے بیٹھے ہوں کہ پاکستان کے مکان کی چھت پر مطلوبہ دہشت کار اس وقت تک اُن کا انتظار کرے گا جب تک واشنگٹن میں ایک عدالت یہ بحث کر رہی ہو کہ اس کو اُڑا دینا مناسب ہوگا یا نہیں۔
اخبار کے خیال میں جان برنن سے جو سوال کئے گئے وُہ سب صحیح نہیں تھے اور نامزد امیدوار کے جوابات اکثرو بیشتر غیر تسلّی بخش تھے۔ مثلاً، وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ واٹر بورڈنگ خالصتا ً اذیت رسانی کے زُمرے میں آتی ہے اور کسی کو اس پر تعجُّب نہ ہوا کہ وُہ نشانہ بنا کر امریکی شہریوں کو مثلاً انورالمالکی یا دوسرے ایسے ملزمو ں کو بغیر کسی نگرانی یا عدالتی چارہ جوئی کے ہلاک کرنے کے حامی ہیں۔
اخبار اِس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا کہ انتظامیہ کے پاس کسی محاذ جنگ سے ماورا، بلا نگرانی یا قانونی چارہ جوئی کے امریکیوں کو ہلاک کرنے کا اختیار ہے اور یہ کہ مسٹر برنن کا یہ دعویٰ کہ حکومت اُسی صورت یہ ہلاکت خیز طاقت استعمال کرتی ہےجب اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ ہو، ڈرون طیاروں کے بہت زیادہ استعمال کی اطلاعات کے برعکس ہے۔
اخبار نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جب مسٹر برننکے تقرر کی توثیق ہوجائے تو وُہ یہ نہیں بُھولیں گے کہ خطرہ کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو، اُس کی وجہ سے عاملہ کو نگرانی اور قانونی ضابطوں سے مبرّا نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اسی موضوع پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے تجزیہ نگار یوجین رابن سن اپنے کالم میں رقمطراز ہیں کہ اگر جارج بُش اپنے عہد میں بتاتے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بدولت اُنہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وُہ سمندرپار ایک امریکی شہری کو ڈرون طیارے سے چلائے گئے ایک مزائیل کی مدد سے عدالتی لوازمات کی پرواہ کئے بغیر ہلاک کریں، تو میں غُصّے سے پاگل ہو اتا، اور اب جب براک اوبامہ کی طرف سے اسی طرح کا افسوس ناک بیان آیا ہے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ، اخبار کے بقول، ’جو چیز غلط ہے، وُہ غلط ہے‘۔
ڈرون طیاروں کی مدد سے جنگ کا جو نیا باب شروع ہوا ہے، مضمون نگار کی نظر میں وہ ریموٹ کنٹرول سے قتل کرنے کے زُمرے میں آتا ہے،جس کی وجہ سے نہائت ہی تکلیف دِہ اخلاقی سوالوں نے جنم لیاہے، جن کا جواب تلاش کر نے کی ضرورت ہے، کیونکہ، انتظامیہ کے ایک ترجمان نے حال ہی میں اُنہیں بتایا تھا کہ القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری کشمکش میں ڈرون حملے انتظامیہ کا ایک نیا معمول بن گئے ہیں۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ڈرون طیاروں کی صلاحیت بڑھتی جائے گی، ویسے ویسے اُن مقاصد کی نوعیت میں اضافہ ہوتا جائے گا جن کے لئے اُنہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جیسے جیسے امریکہ کی طرف سے ان ڈرون طیاروں کی فوجی افادیت کا مظاہرہ ہوگا، تو دوسرے ملک بھی ایسے ہی طیاروں کے اپنے بیڑے تعمیر کرینگے۔
’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں یاد دلاتاہے کہ سنہ 2009 ء میں ایک امریکی ڈرون سے ایک مزائیل داغا گیا تھا جس نے بیت اللہ محسود کے خونیں کریئر کا خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ اس وقت پاکستان میں ایک مکان کی چھت پر کھڑا تھا۔ اس وقت وہ طالبان کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا مانا جاتا تھا۔ اور اخبار کے بقول، حماقت اُس نے یہ کی تھی کہ اُس نے چند منٹ کے لئے اپنا چہرہ دکھا دیا تھا جو اس کے بغیر ہواباز کے چلنے والے طیارے کے لئے شِست باندھنے کے لئے کافی تھا۔
اخبار کہتاہےکہ وہ یہ فاش غلطی کرنے والا آخری دہشت گرد نہیں ہوگا اور اب صدر اوبامہ بڑے جارحانہ اندز میں ان ڈرون حملوں کی امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی مساعی کے ایک اہم جُزو کےطور پر، وکالت کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے اُن کے پیش رو، جارج بُش کرتے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈرون سے چلائی جانے والی یہ مہم، پاکستان، افغانستان، یمن، اور افریقہ کے بعض علاقوں میں غیر معمولی حد تک موثّر ثابت ہوئی ہے۔ اور اس نے القاعدہ کی قیادت کی کمر توڑ دی ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ کانگریس کے ارکان سمیت بُہت سے لوگوں کو ان سے شہریوں کی جانیں ضائع ہونے کے خطرے اور اُن خفیہ قواعد پر تشویش ہے جو ڈرون چلانے والوں نے اپنے اہداف کے انتخاب کے لئے اپنا رکھے ہیں۔
اگرچہ، انتظامیہ کی طرف سے ایک یاداشت میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اعلیٰ سطح کا باخبر عہدہ دار طے کرتا ہے کہ جس دہشت گرد کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ہوتا ہے اُس کی طرف سے امریکہ پر حملہ ہونے سے پہلے ہی اُس کے خلاف کاروائی کی جائے اور وہ بھی اُس صورت میں کہ اس کو حراست میں لینا ممکن نہ ہو۔
اخبار نے اس کاروائی میں عدلیہ کی نگرانی شامل کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے لیکن کہا ہے کہ اس کی وجہ سے یہ خدشہ بھی ہے کہ محاذ جنگ پر فیصلہ کرتے وقت امریکی فوجی کی ایک نظر ججوں پر ہوگی۔
اخبار کہتا ہےکہ ایسے ڈرون چلانے والے کس کام کےجو یہ آس لگائے بیٹھے ہوں کہ پاکستان کے مکان کی چھت پر مطلوبہ دہشت کار اس وقت تک اُن کا انتظار کرے گا جب تک واشنگٹن میں ایک عدالت یہ بحث کر رہی ہو کہ اس کو اُڑا دینا مناسب ہوگا یا نہیں۔