واشنگٹن —
اوباما انتظامیہ ایسے امریکی شہریوں کو جن پر بیرونی ملکوں میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو، نشانہ بنا کر حملے کرنے کی پالیسی کا دفاع کر رہی ہے۔ محکمۂ انصاف نے حال ہی میں ایک میمورنڈم کا انکشاف کیا ہے جس میں ان حملوں کا ایک عمومی جواز پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں ۔
محکمۂ انصاف کا میمو رنڈم جو خفیہ نہیں ہے، ایسے امریکیوں کو نشانہ بنانے کی متنازع پالیسی کی طویل وضاحت ہے جن کے بارے میں امریکی عہدے داروں کو یقین ہے کہ وہ بیرونی ملکوں میں بیٹھ کر امریکہ کے خلاف حملوں کے منصوبے بنا رہےہیں۔
عہدے داروں نے اس سے پہلے اس پالیسی کا دفاع یہ کہہ کر کیا ہے کہ جب کسی مخصوص حملے کا یقین ہو، تو یہ پالیسی ضروری ہے۔ لیکن اس نئے میمورنڈم میں حملوں کے لیے زیادہ وسیع جواز پیش کیا گیا ہے، یعنی ایسے مشتبہ لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو بعض امریکی اہداف کے خلاف سازشوں میں ملوث ہوں۔
اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے منگل کے روز، محکمۂ انصاف میں ایک نیوز کانفرنس میں اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا’’ہمیں اصل فکر یہ ہے کہ امریکہ کے لوگ محفوظ رہیں، لیکن ہم یہ کام اس طرح کریں جو ہمارے قوانین اور ہماری اقدار کے مطابق ہو ۔ ہم جو بھی اقدام کرتے ہیں اس کے لیے ہمارا جواز امریکی کانگریس کا وہ قانون ہے جس کے تحت ہمیں القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے خلاف کارروائی کی اجازت ہے، نہ صرف پاکستان میں یا نہ صرف افغانستان میں، بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی۔‘‘
لیکن اس میمورنڈم کے سامنے آنے سے کانگریس میں اس پالیسی کے بارے میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے 11 سینیٹروں کے ایک گروپ نے صدر براک اوباما سے کہا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث امریکی شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے کے جواز میں انتظامیہ کے پاس جو بھی قانونی آرا ہیں، وہ پیش کی جائیں۔
ورجینیا کے ڈیموکریٹک سینیٹر جمم موران ان قانون سازوں میں شامل ہیں جنہیں حکومت کے اس جواز کے بارے میں پریشانی ہے جو اس نے ایسے شہریوں کے خلاف کارروائی کے بارے میں دیا ہے جن کے بارے میں غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ساز باز کا شبہ ہے۔
’’میرے خیال میں ہم اس مرحلے میں پہنچ گئے ہیں جب امریکیوں کی شہری آزادیوں کو سنگین خطرات درپیش ہیں۔ مجھے اس خیال سے پریشانی ہوتی ہے کہ اس پورے معاملے میں کسی قسم کی کوئی عدالتی جانچ پڑتا ل نہیں ہوتی ۔‘‘
قانونی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ محکمۂ انصاف کا میمورنڈم اہم ہے کیوں کہ اس میں دہشت گردوں کے منڈلاتے ہوئے خطرے کی بہت زیادہ وسیع تعریف بیان کی گئی ہے جو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کا جواز بن سکتی ہے۔
جیفری روزن جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور نیو ریپبلک میگیزین کے قانونی امور کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’اوباما انتظامیہ کے قانونی تجزیے کا ایک سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس میں اس تصور کو بے تحاشا وسعت دے دی گئی ہے کہ کس قسم کے فوری اور متوقع خطرے کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کا جواز بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے تنازعے میں اس وقت سے شدت پیدا ہوئی جب یمن میں ستمبر 2011 میں ڈرون کے حملے سے دو امریکی شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ یہ لوگ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
صدارتی ترجمان جے کارنے نے کہا کہ دہشت گردی کے مشتبہ امریکیوں کو ڈرونز کا نشانہ بنانا قانونی ، اخلاقی معیار کے مطابق اور دانشمندانہ اقدام ہے۔ ’’عام طور سے ہو یہ رہا ہے کہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت امریکہ اور امریکی شہریوں کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہتی ہے، امریکہ اور امریکی شہریوں کے خلاف حملوں کے منصوبے بناتی رہتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔‘‘
کارنے نے مزید کہا کہ کانگریس نے انتظامیہ کو القاعدہ کے خلاف جنگ کا اختیار دیا ہے، اور یہ جنگ اس انداز سے لڑی جا رہی ہے جو امریکہ آئین سے ہم آہنگ ہے ۔
ہلاکتوں کے بارے میں قانونی میمورنڈم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حملہ صرف اس صورت میں ضروری ہو سکتا ہے جب یہ طے ہو جائے کہ مشتبہ دہشت گرد کو پکڑنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
لیکن قانونی ماہر جیفری روزن نے انتباہ کیا ہے کہ اس پالیسی کے لیے جو جواز پیش کیا گیا ہے وہ بہت زیادہ وسیع ہے، اور اس کے غلط استعمال کے خلاف کافی حفاظتی ضابطے موجود نہیں ہیں۔
’’ممکنہ زیادتیوں کے بارے میں اندیشے موجود ہیں ۔ سب سے زیادہ فوری تشویش یہ ہے کہ امریکی حکومت سے غلطی سر زد ہو سکتی ہے۔ حکومت کسی مشتبہ شخص کی نشاندہی غلطی سے القاعدہ کے سرگرم لیڈر کے طور پر کر سکتی ہے، اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اسے قتل کر سکتی ہے، اور اس فیصلے کا کوئی جائزہ نہیں لیا جائے گا ۔‘‘
جمعرات کو جب سینیٹ میں سی آئی اے کے اگلے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جان برینن کی تقرری کی توثیق کی سماعت ہوگی، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا ۔ برینن نے ڈرون پروگرام چلانے میں مدد دی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم ہتھیار کے طور پر اس کا دفاع کیا ہے ۔
محکمۂ انصاف کا میمو رنڈم جو خفیہ نہیں ہے، ایسے امریکیوں کو نشانہ بنانے کی متنازع پالیسی کی طویل وضاحت ہے جن کے بارے میں امریکی عہدے داروں کو یقین ہے کہ وہ بیرونی ملکوں میں بیٹھ کر امریکہ کے خلاف حملوں کے منصوبے بنا رہےہیں۔
عہدے داروں نے اس سے پہلے اس پالیسی کا دفاع یہ کہہ کر کیا ہے کہ جب کسی مخصوص حملے کا یقین ہو، تو یہ پالیسی ضروری ہے۔ لیکن اس نئے میمورنڈم میں حملوں کے لیے زیادہ وسیع جواز پیش کیا گیا ہے، یعنی ایسے مشتبہ لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو بعض امریکی اہداف کے خلاف سازشوں میں ملوث ہوں۔
اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے منگل کے روز، محکمۂ انصاف میں ایک نیوز کانفرنس میں اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا’’ہمیں اصل فکر یہ ہے کہ امریکہ کے لوگ محفوظ رہیں، لیکن ہم یہ کام اس طرح کریں جو ہمارے قوانین اور ہماری اقدار کے مطابق ہو ۔ ہم جو بھی اقدام کرتے ہیں اس کے لیے ہمارا جواز امریکی کانگریس کا وہ قانون ہے جس کے تحت ہمیں القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے خلاف کارروائی کی اجازت ہے، نہ صرف پاکستان میں یا نہ صرف افغانستان میں، بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی۔‘‘
لیکن اس میمورنڈم کے سامنے آنے سے کانگریس میں اس پالیسی کے بارے میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے 11 سینیٹروں کے ایک گروپ نے صدر براک اوباما سے کہا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث امریکی شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے کے جواز میں انتظامیہ کے پاس جو بھی قانونی آرا ہیں، وہ پیش کی جائیں۔
ورجینیا کے ڈیموکریٹک سینیٹر جمم موران ان قانون سازوں میں شامل ہیں جنہیں حکومت کے اس جواز کے بارے میں پریشانی ہے جو اس نے ایسے شہریوں کے خلاف کارروائی کے بارے میں دیا ہے جن کے بارے میں غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ساز باز کا شبہ ہے۔
’’میرے خیال میں ہم اس مرحلے میں پہنچ گئے ہیں جب امریکیوں کی شہری آزادیوں کو سنگین خطرات درپیش ہیں۔ مجھے اس خیال سے پریشانی ہوتی ہے کہ اس پورے معاملے میں کسی قسم کی کوئی عدالتی جانچ پڑتا ل نہیں ہوتی ۔‘‘
قانونی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ محکمۂ انصاف کا میمورنڈم اہم ہے کیوں کہ اس میں دہشت گردوں کے منڈلاتے ہوئے خطرے کی بہت زیادہ وسیع تعریف بیان کی گئی ہے جو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کا جواز بن سکتی ہے۔
جیفری روزن جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور نیو ریپبلک میگیزین کے قانونی امور کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’اوباما انتظامیہ کے قانونی تجزیے کا ایک سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس میں اس تصور کو بے تحاشا وسعت دے دی گئی ہے کہ کس قسم کے فوری اور متوقع خطرے کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کا جواز بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے تنازعے میں اس وقت سے شدت پیدا ہوئی جب یمن میں ستمبر 2011 میں ڈرون کے حملے سے دو امریکی شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ یہ لوگ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
صدارتی ترجمان جے کارنے نے کہا کہ دہشت گردی کے مشتبہ امریکیوں کو ڈرونز کا نشانہ بنانا قانونی ، اخلاقی معیار کے مطابق اور دانشمندانہ اقدام ہے۔ ’’عام طور سے ہو یہ رہا ہے کہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت امریکہ اور امریکی شہریوں کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہتی ہے، امریکہ اور امریکی شہریوں کے خلاف حملوں کے منصوبے بناتی رہتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔‘‘
کارنے نے مزید کہا کہ کانگریس نے انتظامیہ کو القاعدہ کے خلاف جنگ کا اختیار دیا ہے، اور یہ جنگ اس انداز سے لڑی جا رہی ہے جو امریکہ آئین سے ہم آہنگ ہے ۔
ہلاکتوں کے بارے میں قانونی میمورنڈم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حملہ صرف اس صورت میں ضروری ہو سکتا ہے جب یہ طے ہو جائے کہ مشتبہ دہشت گرد کو پکڑنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
لیکن قانونی ماہر جیفری روزن نے انتباہ کیا ہے کہ اس پالیسی کے لیے جو جواز پیش کیا گیا ہے وہ بہت زیادہ وسیع ہے، اور اس کے غلط استعمال کے خلاف کافی حفاظتی ضابطے موجود نہیں ہیں۔
’’ممکنہ زیادتیوں کے بارے میں اندیشے موجود ہیں ۔ سب سے زیادہ فوری تشویش یہ ہے کہ امریکی حکومت سے غلطی سر زد ہو سکتی ہے۔ حکومت کسی مشتبہ شخص کی نشاندہی غلطی سے القاعدہ کے سرگرم لیڈر کے طور پر کر سکتی ہے، اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اسے قتل کر سکتی ہے، اور اس فیصلے کا کوئی جائزہ نہیں لیا جائے گا ۔‘‘
جمعرات کو جب سینیٹ میں سی آئی اے کے اگلے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جان برینن کی تقرری کی توثیق کی سماعت ہوگی، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا ۔ برینن نے ڈرون پروگرام چلانے میں مدد دی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم ہتھیار کے طور پر اس کا دفاع کیا ہے ۔