واشنگٹن —
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ افغانستان میں منشیات کی وباٴ پھیلتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے امریکہ کی اُن کوششوں میں ناکامی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، جو وہاں ایک مستحکم ملک کی تعمیر کے لئے کی جا رہی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی محکمہٴدفاع نے اس سے پہلے اس موضوع پر اس سے زیادہ سنگین انتباہ نہیں کیا ہے۔
سرکاری عہدہ داروں اور دوسری اطلاعات کے مطابق، حالیہ برسوں میں افیون کا منافع بخش کاروبار پھلتا پُھولتا رہا ہے، اور امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلاٴ کے بعد، اس ناجائز کاروبار پر روک ٹوک ختم ہوتی جا رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے افغانستان حد سے زیادہ غریب ملک ہے۔ اگر افیوں کی فصل کو تباہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا مقامی آبادی کی مخاصمت مول لینا، جو اپنے روزگار کو بچانے کے لئے تشدُّد پر اُتر آئیں گے۔ لیکن، افیون کا یہ کارو بار، دنیا بھر کے ہیروئین کے تاجروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ طالبان کا بھی ذریعہٴ آمدنی ہے، اور محکمہٴدفاع کے اعداد و شمار کے مطابق، طالبان کے سالانہ بجٹ کا ایک چوتھائی، یعنی 40 کرو ڑ ڈالر افیون کی کاشت سے پور کیا جاتا ہے۔
افغان حکومت کے اندر بھی منشیات کی وجہ سے کرپشن پھیل رہی ہے۔ اس طرح، عوام اُن سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور متبادل نظم و نسق کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔ اس خلاٴ کو طالبان پُر کر رہے ہیں۔
افغانستان میں افیوں کے کاروبار کے بارے میں ’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی رپورٹ ہے کہ پچھلے سال اس کی پیداوار ایک نئی حد چُھو گئی۔ جو سنہ 2012 کے مقابلے میں 36 فی صد زیادہ ہے۔ حالانکہ، محکمہٴدفاع نے منشیات کی روک تھام کے لئے دو ارب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے، جس کا محکمہٴدفاع کے عہدہ داروں کے خیال میں صحیح مصرف نہیں ہوا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کینیڈا میں جتنی ہیروئن فروخت ہو رہی ہے، اُس کا 90 فی صد افغانستان سے آتا ہے۔ امریکہ میں ورمانٹ ریاست کے گورنر نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ آپ افغانستان کے مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں کسی قسم کی کامیابی کا تصوُّر اُس وقت تک محال ہے، جب تک منشیات کے کاروبار سے پیدا شدہ تشدّد اور کرپشن کا قلع قمع نہیں کیا جاتا۔
امریکی محکمہٴدفاع کے مطابق، امریکی کوششوں کے باوجود، غیر قانونی منشیات کے کاروبار سے افغان باغیوں کو حاصل ہونے والی آمدنی میں کم و بیش کوئی فرق نہیں پڑا ہے، اور منشیات کے ناجائز کاروبار اور افیون کی پیداوار پر اُن کا تصرُّف بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح، ایک طرف ناجائز منشیات کی پیداوار بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف، پہلے جتنی مقدار میں قانون نافذ کرنے والے اُسے ضبط کرلیتے تھے، اب وُہ مقدار آدھی سے بھی کم ہو گئی ہے۔
’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی یہ بھی اطلاع ہے کہ بارودی سُرنگیں ہٹانے والے کارندوں کو، جنہیں مغربی افغانستان میں نامعلوم بندوق برداروں نے اغواٴ کر لیا تھا، چھوڑ دیا گیا ہے، ہرات صوبے کے گورنر کے مطابق وہ سب افغان تھے، جنہیں پشتُون زرغون ضلعے میں بارودی سرنگیں صاف کرنے کے دوران حراست میں لے لیا گیا تھا۔ یہ لوگ برطانیہ میں قائم ایک ٹرسٹ کے لئے کام کرتے تھے۔ جسے جنگوں کے دوران بچھائی گئی بارودی سرنگیں اور گولہ بارود ہٹانے کی مہارت ہے، 30 سال کے مسلسل جنگ و جدال کے بعد، افغانستان کا شمار اُن علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں، اور اگرچہ طالبان خُود جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھاتے ہیں، وُہ عام طور پر سرنگیں ہٹانے والے ان کارندوں کے کام میں مخل نہیں ہوتے، جو زرعی زمینوں اور مشترکہ علاقوں سے یہ آتشیں مواد ہٹاتے ہیں۔
نیو یارک کےاخبار ’ڈیلی نیُوز‘ میں معروف کالم نگار رچرڈ کوہن نے کالا راڈو ریاست میں چرس پینے سے پابندی ہٹائے جانے کے فیصلے پر ایک تبصرے میں کہا ہے کہ ایک وقت تھا جب وُہ تمباکو نوشی کے عادی تھے، جس کو چھوڑنے کے لئے اُنہیں کیا کیا جتن نہ کرنے پڑے۔
وہ کہتے ہیں کہ سرجن جنرل کی تازہ ترن رپورٹ کے مطابق، سگریٹ نوشی پہلے جتنی مضر سمجھی جاتی تھی، حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ ضرر رساں ہے۔ پھیپھڑوں کے سرطان اور دل کی بیماری میں اب ظیابیطس۔ اور جگر کے سرطان کا اضافہ کر دیا گیا ہے، بلکہ آنکھو ں کی بینائی سے محرومی، تپِدق، جوڑوں کا درد اس پر مُستزاد۔ 1965 میں 42 فیصد امریکی سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ یہ تناسُب اب گھٹ کر 18 فیصد رہ گیا ہے۔
کوہن کہتے ہیں کہ سگریٹ کی صنعت کے علاوہ کسی اور صنعت نے اتنا عذاب نہیں پھیلایا ہوگا، اور شروع میں اس صنعت نے طبّی حقائق کو چُھپانے کے لئے، کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے، حق تو یہ کہ کسی اور صنعت نے لوگو ں سے اتنا جُھوٹ نہیں بولا ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی محکمہٴدفاع نے اس سے پہلے اس موضوع پر اس سے زیادہ سنگین انتباہ نہیں کیا ہے۔
سرکاری عہدہ داروں اور دوسری اطلاعات کے مطابق، حالیہ برسوں میں افیون کا منافع بخش کاروبار پھلتا پُھولتا رہا ہے، اور امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلاٴ کے بعد، اس ناجائز کاروبار پر روک ٹوک ختم ہوتی جا رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے افغانستان حد سے زیادہ غریب ملک ہے۔ اگر افیوں کی فصل کو تباہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا مقامی آبادی کی مخاصمت مول لینا، جو اپنے روزگار کو بچانے کے لئے تشدُّد پر اُتر آئیں گے۔ لیکن، افیون کا یہ کارو بار، دنیا بھر کے ہیروئین کے تاجروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ طالبان کا بھی ذریعہٴ آمدنی ہے، اور محکمہٴدفاع کے اعداد و شمار کے مطابق، طالبان کے سالانہ بجٹ کا ایک چوتھائی، یعنی 40 کرو ڑ ڈالر افیون کی کاشت سے پور کیا جاتا ہے۔
افغان حکومت کے اندر بھی منشیات کی وجہ سے کرپشن پھیل رہی ہے۔ اس طرح، عوام اُن سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور متبادل نظم و نسق کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔ اس خلاٴ کو طالبان پُر کر رہے ہیں۔
افغانستان میں افیوں کے کاروبار کے بارے میں ’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی رپورٹ ہے کہ پچھلے سال اس کی پیداوار ایک نئی حد چُھو گئی۔ جو سنہ 2012 کے مقابلے میں 36 فی صد زیادہ ہے۔ حالانکہ، محکمہٴدفاع نے منشیات کی روک تھام کے لئے دو ارب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے، جس کا محکمہٴدفاع کے عہدہ داروں کے خیال میں صحیح مصرف نہیں ہوا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کینیڈا میں جتنی ہیروئن فروخت ہو رہی ہے، اُس کا 90 فی صد افغانستان سے آتا ہے۔ امریکہ میں ورمانٹ ریاست کے گورنر نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ آپ افغانستان کے مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں کسی قسم کی کامیابی کا تصوُّر اُس وقت تک محال ہے، جب تک منشیات کے کاروبار سے پیدا شدہ تشدّد اور کرپشن کا قلع قمع نہیں کیا جاتا۔
امریکی محکمہٴدفاع کے مطابق، امریکی کوششوں کے باوجود، غیر قانونی منشیات کے کاروبار سے افغان باغیوں کو حاصل ہونے والی آمدنی میں کم و بیش کوئی فرق نہیں پڑا ہے، اور منشیات کے ناجائز کاروبار اور افیون کی پیداوار پر اُن کا تصرُّف بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح، ایک طرف ناجائز منشیات کی پیداوار بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف، پہلے جتنی مقدار میں قانون نافذ کرنے والے اُسے ضبط کرلیتے تھے، اب وُہ مقدار آدھی سے بھی کم ہو گئی ہے۔
’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی یہ بھی اطلاع ہے کہ بارودی سُرنگیں ہٹانے والے کارندوں کو، جنہیں مغربی افغانستان میں نامعلوم بندوق برداروں نے اغواٴ کر لیا تھا، چھوڑ دیا گیا ہے، ہرات صوبے کے گورنر کے مطابق وہ سب افغان تھے، جنہیں پشتُون زرغون ضلعے میں بارودی سرنگیں صاف کرنے کے دوران حراست میں لے لیا گیا تھا۔ یہ لوگ برطانیہ میں قائم ایک ٹرسٹ کے لئے کام کرتے تھے۔ جسے جنگوں کے دوران بچھائی گئی بارودی سرنگیں اور گولہ بارود ہٹانے کی مہارت ہے، 30 سال کے مسلسل جنگ و جدال کے بعد، افغانستان کا شمار اُن علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں، اور اگرچہ طالبان خُود جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھاتے ہیں، وُہ عام طور پر سرنگیں ہٹانے والے ان کارندوں کے کام میں مخل نہیں ہوتے، جو زرعی زمینوں اور مشترکہ علاقوں سے یہ آتشیں مواد ہٹاتے ہیں۔
نیو یارک کےاخبار ’ڈیلی نیُوز‘ میں معروف کالم نگار رچرڈ کوہن نے کالا راڈو ریاست میں چرس پینے سے پابندی ہٹائے جانے کے فیصلے پر ایک تبصرے میں کہا ہے کہ ایک وقت تھا جب وُہ تمباکو نوشی کے عادی تھے، جس کو چھوڑنے کے لئے اُنہیں کیا کیا جتن نہ کرنے پڑے۔
وہ کہتے ہیں کہ سرجن جنرل کی تازہ ترن رپورٹ کے مطابق، سگریٹ نوشی پہلے جتنی مضر سمجھی جاتی تھی، حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ ضرر رساں ہے۔ پھیپھڑوں کے سرطان اور دل کی بیماری میں اب ظیابیطس۔ اور جگر کے سرطان کا اضافہ کر دیا گیا ہے، بلکہ آنکھو ں کی بینائی سے محرومی، تپِدق، جوڑوں کا درد اس پر مُستزاد۔ 1965 میں 42 فیصد امریکی سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ یہ تناسُب اب گھٹ کر 18 فیصد رہ گیا ہے۔
کوہن کہتے ہیں کہ سگریٹ کی صنعت کے علاوہ کسی اور صنعت نے اتنا عذاب نہیں پھیلایا ہوگا، اور شروع میں اس صنعت نے طبّی حقائق کو چُھپانے کے لئے، کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے، حق تو یہ کہ کسی اور صنعت نے لوگو ں سے اتنا جُھوٹ نہیں بولا ہوگا۔