دنیا کی نوے فیصد افیون اور ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے اور اس منشیات کا سالانہ چالیس فیصد پاکستان کے راستے بین الاقوامی منڈی کو اسمگل کیا جاتا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کے لیے سنگین مسائل کا باعث بن رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کے راستے ترسیل کی جانے والی افغان منشیات کی سالانہ مالیت 30 ارب ڈالر ہے اور ناقدین کا ماننا ہے کہ مالی طور پر اس پرکشش دھندے میں ملوث گروہ مقامی بااثر افراد کی معاونت کے بغیر ایسا نہیں کرسکتے۔
منیشات کی اس کھیپ کو زیادہ تر بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور سندھ کی بندرگاہ کے ذریعے بیرونی دنیا کو اسمگل کیا جاتا ہے۔
لیکن اقوام متحدہ اور خود پاکستانی حکام کے لیے یہ امرانتہائی تشویش کا باعث ہے کہ ہرسال 350 ٹن سے زائد افغان منشیات پاکستان میں ہی استعمال ہو جاتی ہے کیونکہ ملک میں نشے کے عادی کم از کم ساڑھے چھ لاکھ لوگوں کو اگر روزانہ کی بنیاد پر ہیروئن کی خوراک نہ ملے تو ان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسداد منشیات ’یو این او ڈی سی‘ کے پاکستان میں مشیر ڈاکٹر ندیم رحمٰن کہتے ہیں کہ ان میں سے ہر نشئی روزانہ اوسطاً ہیروئن کی خوارک خریدنے پر 300 روپے خرچ کرتا ہے۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خوراک (ہیروئن) کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر انھیں یہ نا ملے تو ان کی موت بھی واقعہ ہو سکتی ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دن یا دو دن کے وقفے یا ہفتے میں ایک دفعہ نہیں بلکہ روزانہ صبح، دوپہر شام یہاں تک کہ آٹھ دفعہ ہیروئن پیتے ہیں۔ ان کی اوسط خوراک دو گرام ہے اور چھ لاکھ 50 ہزار کو دو سے ضرب دی جائے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ہیروئن کی کتنی کھپت ہے۔‘‘
ڈاکٹر ندیم کہتے ہیں کہ ملک میں نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے قائم مراکز کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔
’’اس وقت ملک میں سرکاری اور نجی شعبے میں مجموعی طور پر 75 ایسے بڑے مراکز ہیں جہاں ایسے مریضوں کا اعلاج کیاجاتا ہے مگر ان میں سے اکثر جدید سائنسی بنیادوں پر علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں اس لیے اب یواین او ڈ سی نے عام اپستالوں میں بھی معالجین کو نشے کے عادی افراد کا علاج کرنے کی تربیت دینے کا ایک منصوبہ شروع کررکھا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کےانسداد منشیات کے ادارے اور پاکستانی عہدے داروں کو تشویش ہے کہ افغانستان میں پیداوار میں اضافے سے پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے اقوام متحدہ کی مالی معاونت سے پہلی مرتبہ حکومت نے دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد قومی خانہ شماری شروع کی ہے جو دسمبر تک مکمل ہونے کی توقع ہے جس کے بعد پاکستان میں نشہ کرنے والے افراد کی مصدقہ تعداد معلوم ہوسکے گی اور یہ اعداد و شمار منشیات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو پالیسی و منصوبہ سازی میں مدد دیں گے۔
اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے پاکستان میں سربراہ جرمی ڈگلس کہتے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ اور اس کا نشہ کرنے والے افراد مقامی صحت کے قومی ڈھانچے، محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے نظام پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔
اس کی وجہ سے آپ کا عدالتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے کیونکہ منشیات کی اسمگلنگ کے لاتعداد مقدمات زیر التوا ہیں اور جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔ منشیات کے کاروبار نے پاکستان کی جیلوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
’’اگر آپ پاکستان میں کسی جیل کا دورہ کریں تو وہاں پرلوگوں کی نصف تعداد کسی نہ کسی طور منشیات فروشی سے منسلک جرائم میں قید ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کاروبار سے منسلک افراد نے آپ کے پورے نظامِ عدل کو مفلوج کر رکھا ہے۔‘‘
جرمی ڈگلس کہتے ہیں کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
’’نشے کے عادی افراد کئی دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اورعام آبادی میں ان لوگوں کا گھل مل جانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔‘‘
منشیات کی پیداور، اسمگلنک اور استعمال کے بارے میں اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں اس لعنت کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک پوست کی کاشت سے آزاد ہو چکا ہے جب کہ بھنگ یا حشیش ضبط کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جہاں سالانہ منشیات کی مجموعی مقدارکا 19 فیصد پکڑا جاتا ہے۔ مزید برآں افیون پکڑنے والے ملکوں میں پاکستان تیسرے اور ہیروئن ضبط کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔
لیکن پاکستان میں انسداد منشیات کے حکام کہتے ہیں کہ اس لعنت کا مکمل خاتمہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب مغربی ملکوں میں منشیات کی طلب کو کم کرنے کی موثر کوششیں کی جائیں، کیونکہ جب تک طلب باقی ہے رسد کی راہیں محدود کرنے کی بین الاقوامی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گی۔
اقوام متحدہ کے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کے راستے ترسیل کی جانے والی افغان منشیات کی سالانہ مالیت 30 ارب ڈالر ہے اور ناقدین کا ماننا ہے کہ مالی طور پر اس پرکشش دھندے میں ملوث گروہ مقامی بااثر افراد کی معاونت کے بغیر ایسا نہیں کرسکتے۔
منیشات کی اس کھیپ کو زیادہ تر بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور سندھ کی بندرگاہ کے ذریعے بیرونی دنیا کو اسمگل کیا جاتا ہے۔
’’نشے کے عادی افراد کئی دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اورعام آبادی میں ان لوگوں کا گھل مل جانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسداد منشیات ’یو این او ڈی سی‘ کے پاکستان میں مشیر ڈاکٹر ندیم رحمٰن کہتے ہیں کہ ان میں سے ہر نشئی روزانہ اوسطاً ہیروئن کی خوارک خریدنے پر 300 روپے خرچ کرتا ہے۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خوراک (ہیروئن) کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر انھیں یہ نا ملے تو ان کی موت بھی واقعہ ہو سکتی ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دن یا دو دن کے وقفے یا ہفتے میں ایک دفعہ نہیں بلکہ روزانہ صبح، دوپہر شام یہاں تک کہ آٹھ دفعہ ہیروئن پیتے ہیں۔ ان کی اوسط خوراک دو گرام ہے اور چھ لاکھ 50 ہزار کو دو سے ضرب دی جائے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ہیروئن کی کتنی کھپت ہے۔‘‘
ڈاکٹر ندیم کہتے ہیں کہ ملک میں نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے قائم مراکز کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔
’’اس وقت ملک میں سرکاری اور نجی شعبے میں مجموعی طور پر 75 ایسے بڑے مراکز ہیں جہاں ایسے مریضوں کا اعلاج کیاجاتا ہے مگر ان میں سے اکثر جدید سائنسی بنیادوں پر علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں اس لیے اب یواین او ڈ سی نے عام اپستالوں میں بھی معالجین کو نشے کے عادی افراد کا علاج کرنے کی تربیت دینے کا ایک منصوبہ شروع کررکھا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کےانسداد منشیات کے ادارے اور پاکستانی عہدے داروں کو تشویش ہے کہ افغانستان میں پیداوار میں اضافے سے پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے اقوام متحدہ کی مالی معاونت سے پہلی مرتبہ حکومت نے دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد قومی خانہ شماری شروع کی ہے جو دسمبر تک مکمل ہونے کی توقع ہے جس کے بعد پاکستان میں نشہ کرنے والے افراد کی مصدقہ تعداد معلوم ہوسکے گی اور یہ اعداد و شمار منشیات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو پالیسی و منصوبہ سازی میں مدد دیں گے۔
اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے پاکستان میں سربراہ جرمی ڈگلس کہتے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ اور اس کا نشہ کرنے والے افراد مقامی صحت کے قومی ڈھانچے، محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے نظام پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔
اس کی وجہ سے آپ کا عدالتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے کیونکہ منشیات کی اسمگلنگ کے لاتعداد مقدمات زیر التوا ہیں اور جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔ منشیات کے کاروبار نے پاکستان کی جیلوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
’’اگر آپ پاکستان میں کسی جیل کا دورہ کریں تو وہاں پرلوگوں کی نصف تعداد کسی نہ کسی طور منشیات فروشی سے منسلک جرائم میں قید ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کاروبار سے منسلک افراد نے آپ کے پورے نظامِ عدل کو مفلوج کر رکھا ہے۔‘‘
جرمی ڈگلس کہتے ہیں کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
’’نشے کے عادی افراد کئی دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اورعام آبادی میں ان لوگوں کا گھل مل جانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔‘‘
منشیات کی پیداور، اسمگلنک اور استعمال کے بارے میں اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں اس لعنت کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک پوست کی کاشت سے آزاد ہو چکا ہے جب کہ بھنگ یا حشیش ضبط کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جہاں سالانہ منشیات کی مجموعی مقدارکا 19 فیصد پکڑا جاتا ہے۔ مزید برآں افیون پکڑنے والے ملکوں میں پاکستان تیسرے اور ہیروئن ضبط کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔
لیکن پاکستان میں انسداد منشیات کے حکام کہتے ہیں کہ اس لعنت کا مکمل خاتمہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب مغربی ملکوں میں منشیات کی طلب کو کم کرنے کی موثر کوششیں کی جائیں، کیونکہ جب تک طلب باقی ہے رسد کی راہیں محدود کرنے کی بین الاقوامی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گی۔