واشنگٹن —
خیبر پختون خواہ کے ہنگو ضلعے کے ایک دینی مدرسے پر جمعرات کو صبح سویرے جو ڈرون حملہ ہوا ہے، اس پر امریکی اخبارات نے مزید تفصیلات فراہم کی ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں، سی آئی اے کے ڈرون حملوں کی وجہ سے پیدا شدہ تناؤ میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
اخبار نے مقامی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق صبح کے پانچ بجے یہ حملہ ایسے علاقے میں ہوا جو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے باہر ہے، اور ایک مقامی انٹیلی جینس عہدہ دار کے بقول، اس میں چار بالغ طالب علم اور دو اساتذہ ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک مقامی سیاست داں، عمر خان بنگش کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ مٹی کے گارے سے بنایا ہوا یہ مدرسہ تباہ ہوگیا۔ اس میں زیادہ تر افغانستان کے پناہ گزیں اور حقانی نیٹ ورک سے وابستہ مشتبہ عسکریت پسند آیا جایا کرتے تھے۔
مرنے والوں کی شناخت مولوی احمد جان اور مولوی حمید اللہ کے طور پر کی گئی ہے جو مقامی انٹیلی جینس کے مطابق، نیٹ ورک کے لیڈر سراج حقانی کے قریبی معاون تھے۔
لیکن، خود حقانی حملے کے وقت وہاں موجود نہ تھے۔ مدرسے کے کل 15کمروں میں سے، جو سب گارے کے بنے ہوئے تھے، صرف ایک کمرے کو مزائل لگا ہے۔ اُس وقت موجود تقریباً 80 طلبہ کو گزند نہ پہنچا۔
ایک مقامی عہدے دار نے اس شرط پر کہ اُس کا نام نہ ظاہر کیا جائے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ حال ہی میں وہاں ایک اہم شخص کو دیکھا گیا تھا۔ لیکن، حملے کے وقت وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران، حقانی نیٹ ورک پر پاکستان میں دباؤ بڑھ گیا ہے جہاں اس نے پناہ حاصل کر رکھی ہے اور تربیتی کیمپ چلاتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی عہدے داروں نے اس ڈرون حملے پر کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن، اس کی وجہ سے اغلب یہی ہے کہ امریکہ اور بعض پاکستانی لیڈروں کے مابین تعلقات مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔
خیبر پختون خواہ صوبے میں عمران خان کی تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور اس پارٹی کی خاتون ترجمان، شیریں مزاری نے کہا ہے کہ یہ ڈروں حملہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور یہ کہ پاکستان کی حکومت کو عملی مظاہرہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
لیکن، جیسا کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے پچھلے ماہ رپورٹ دی تھی، پاکستانی فوج اور انٹیلی جینس کو باقاعدگی کے ساتھ بریفنگ دی جاتی ہے اور بعض ایسی مثالیں ہیں جن میں اُنھوں نے خود پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کی اجازت دی ہے۔
اِسی واقعے پر، ’لاس اینجلس ٹائمز‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ باور کیا جاتا ہے کہ مدرسے پر جمعرات کے اس حملے کا تعلق حقانی کے بے دردانہ نیٹ ورک سے ہے۔ اگرچہ، یہ نہیں معلوم کہ حملے کا ہدف کون تھا۔
البتہ، ہلاک ہونے والوں میں سے مفتی احمد جان اور مفتی حمید اللہ کی وابستگی مقامی نیٹ ورک سے تھی۔
مقامی باشندوں نے اخبار کو بتایا کہ چار روز سے ڈرون طیارے اس علاقے کے اوپر پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ بیشتر ڈرون حملے شمالی وزیرستان پر ہوئے ہیں جو حقانی نیٹ ورک کا اڈہ ہے اور واشنگٹن پاکستان پر باربار دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ وہاں فوجی کارروائی کرے۔
لیکن، وہ اس بنیاد پر اس سے پہلو تہی کرتا آیا ہے کہ اُس کی طرح دوسرے علاقوں میں الجھی ہوئی ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی اب امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کے معاہدے میں التوا چاہتے ہیں، اور اخبار نے اُن کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاہدے کو اُن کے جانشین کے منتخب ہونے تک ملتوی کر دیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ حال ہی میں دونوں فریقوں کے مابین جو سمجھوتہ طے پایا ہے مسٹر کرزئی کے بدلے ہوئے مؤقف کی وجہ سے کالعدم ہو سکتا ہے۔
مسٹر کرزئی اگلے سال اپریل میں انتخابات کے بعد عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
لیکن، بہت سے افغان سیاست دانوں کا خیال ہے کہ یہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ اور اِس طرح، اُن کے جانشین کو وقت نہیں ملے گا کہ وہ اتحادی فوجوں کے مینڈیٹ کے دسمبر 2014ء میں ختم ہونے سے پہلے سیکورٹی کے اس معاہدے سے نمٹ سکے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر کرزئی کے قریب ترین معاونین کو صدر کے بیان سے حیرت ہوئی ہے جو لوئے جرگہ میں اُن کی قوم پرستانہ تقریر کے آخر میں آیا اور جس میں اُنھوں نے امریکہ کے خلاف اپنی کئی شکایات گنوائیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں، سی آئی اے کے ڈرون حملوں کی وجہ سے پیدا شدہ تناؤ میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
اخبار نے مقامی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق صبح کے پانچ بجے یہ حملہ ایسے علاقے میں ہوا جو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے باہر ہے، اور ایک مقامی انٹیلی جینس عہدہ دار کے بقول، اس میں چار بالغ طالب علم اور دو اساتذہ ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک مقامی سیاست داں، عمر خان بنگش کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ مٹی کے گارے سے بنایا ہوا یہ مدرسہ تباہ ہوگیا۔ اس میں زیادہ تر افغانستان کے پناہ گزیں اور حقانی نیٹ ورک سے وابستہ مشتبہ عسکریت پسند آیا جایا کرتے تھے۔
مرنے والوں کی شناخت مولوی احمد جان اور مولوی حمید اللہ کے طور پر کی گئی ہے جو مقامی انٹیلی جینس کے مطابق، نیٹ ورک کے لیڈر سراج حقانی کے قریبی معاون تھے۔
لیکن، خود حقانی حملے کے وقت وہاں موجود نہ تھے۔ مدرسے کے کل 15کمروں میں سے، جو سب گارے کے بنے ہوئے تھے، صرف ایک کمرے کو مزائل لگا ہے۔ اُس وقت موجود تقریباً 80 طلبہ کو گزند نہ پہنچا۔
ایک مقامی عہدے دار نے اس شرط پر کہ اُس کا نام نہ ظاہر کیا جائے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ حال ہی میں وہاں ایک اہم شخص کو دیکھا گیا تھا۔ لیکن، حملے کے وقت وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران، حقانی نیٹ ورک پر پاکستان میں دباؤ بڑھ گیا ہے جہاں اس نے پناہ حاصل کر رکھی ہے اور تربیتی کیمپ چلاتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی عہدے داروں نے اس ڈرون حملے پر کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن، اس کی وجہ سے اغلب یہی ہے کہ امریکہ اور بعض پاکستانی لیڈروں کے مابین تعلقات مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔
خیبر پختون خواہ صوبے میں عمران خان کی تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور اس پارٹی کی خاتون ترجمان، شیریں مزاری نے کہا ہے کہ یہ ڈروں حملہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور یہ کہ پاکستان کی حکومت کو عملی مظاہرہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
لیکن، جیسا کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے پچھلے ماہ رپورٹ دی تھی، پاکستانی فوج اور انٹیلی جینس کو باقاعدگی کے ساتھ بریفنگ دی جاتی ہے اور بعض ایسی مثالیں ہیں جن میں اُنھوں نے خود پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کی اجازت دی ہے۔
اِسی واقعے پر، ’لاس اینجلس ٹائمز‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ باور کیا جاتا ہے کہ مدرسے پر جمعرات کے اس حملے کا تعلق حقانی کے بے دردانہ نیٹ ورک سے ہے۔ اگرچہ، یہ نہیں معلوم کہ حملے کا ہدف کون تھا۔
البتہ، ہلاک ہونے والوں میں سے مفتی احمد جان اور مفتی حمید اللہ کی وابستگی مقامی نیٹ ورک سے تھی۔
مقامی باشندوں نے اخبار کو بتایا کہ چار روز سے ڈرون طیارے اس علاقے کے اوپر پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ بیشتر ڈرون حملے شمالی وزیرستان پر ہوئے ہیں جو حقانی نیٹ ورک کا اڈہ ہے اور واشنگٹن پاکستان پر باربار دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ وہاں فوجی کارروائی کرے۔
لیکن، وہ اس بنیاد پر اس سے پہلو تہی کرتا آیا ہے کہ اُس کی طرح دوسرے علاقوں میں الجھی ہوئی ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی اب امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کے معاہدے میں التوا چاہتے ہیں، اور اخبار نے اُن کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاہدے کو اُن کے جانشین کے منتخب ہونے تک ملتوی کر دیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ حال ہی میں دونوں فریقوں کے مابین جو سمجھوتہ طے پایا ہے مسٹر کرزئی کے بدلے ہوئے مؤقف کی وجہ سے کالعدم ہو سکتا ہے۔
مسٹر کرزئی اگلے سال اپریل میں انتخابات کے بعد عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
لیکن، بہت سے افغان سیاست دانوں کا خیال ہے کہ یہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ اور اِس طرح، اُن کے جانشین کو وقت نہیں ملے گا کہ وہ اتحادی فوجوں کے مینڈیٹ کے دسمبر 2014ء میں ختم ہونے سے پہلے سیکورٹی کے اس معاہدے سے نمٹ سکے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر کرزئی کے قریب ترین معاونین کو صدر کے بیان سے حیرت ہوئی ہے جو لوئے جرگہ میں اُن کی قوم پرستانہ تقریر کے آخر میں آیا اور جس میں اُنھوں نے امریکہ کے خلاف اپنی کئی شکایات گنوائیں۔