واشنگٹن —
سخت گیر موقّف رکھنے والے ملّا فضل اللہ کو پاکستانی طالبان کا سربراہ بنائےجانے کو امریکی اخبارات نے مجوزہ امن مذاکرات کو خطرے میں ڈالنے سے تعبیر کیا ہے۔ ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ڈیکلن والش کا کہناہے کہ یہ وہی فضل اللہ ہے جو تعلیم کے لئے لڑنے والی کم سن مجاہدہ ملالہ یوسف زئی پر پچھلے سال کے قاتلانہ حملے کی کوشش کی ذمہ دار تھا۔
ملّا فضل اللہ کا سرعام کوڑے لگانے، لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے، اُن کے سر قلم کرنے اور ریڈیو پر گرجدار تقریریں کرنے کا بھی شُہرہ ہے۔ جن میں وہ اور باتوں کے علاوہ پولیو کے قطرے پلانے کی مذمت کرتا تھا اور جس وجہ سے بعض حلقوں میں وہ ملّا ریڈیو کے نام سے پہچانےجانے لگا۔
شمالی وزیرستان کا قبائیلی علاقہ فضل اللہ کے تقرر کی خوشی میں چلائی گئی گولیوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ لیکن، جیسا کہ تجزیہ کار نے کہا ہے، نواز شریف کی حکومت کی طرف سے اس پر گرمجوشی کے اظہار کا کم امکا ن ہے۔
سابق طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر ان کی حکوت کے عہدہ داروں نے امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ محسود کے ساتھ ان کے امن مذاکرات ہونے ہی والے تھے۔ لیکن والش کہتے ہیں کہ کسی کو یقین نہیں تھا کہ ان مذاکرات کی کامیابی کا کوئی امکان ہے، خود ملا فضل اللہ کو ، جو سنہ 2009 میں سابقہ امن معاہدے سے مکر گیا تھا۔ اس سے بھی کم امید ہے،بلکہ طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ مزید کوئی مذاکرات نہیں ہونگے، کیونکہ ملا فضل اللہ پہلے ہی سے مذاکرات کے خلاف ہے۔ بلکہ، اس نے دہمکی دی ہے کہ طالبان پنجاب میں وفاقی حکومت کے خلاف انتقامی حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شاہد نے نواز شریف پر امریکیوں کے ساتھ حکیم اللہ کے سر کا سودا کرنے کا الزام لگایا۔
فضل اللہ کے بارے میں والش کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کا مطلولبہ دُشمن ہے، جو سنہ 2009 میں سوات میں فوج کی زبردست کاروائی کے بعد وہاں سے بھاگ کر نورستان، افغانستان میں پناہ گزین ہوگیا تھا، جہاں سے اس نے پاکستان پر حملے شروع کردئے،
جن میں ملالہ یوسف زئی کو قتل کرنے کی کوشش شامل ہے۔
اس سال فضل اللہ کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی، جب اس کے لشکریوں نے دِیر میں ایک پاکستانی جنرل کو جان سے مار دیا۔
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ملا فضل اللہ کا عروج تحریک انصاف کے عمران خان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، جنہوں نے دہمکی دے رکھی ہے کہ اگر 20 نومبر کے بعد امریکی ڈرون حملے بند نہ ہوئے، تو نیٹو کے رسد کے راستے بند کر دئے جائیں گے، اور طالبان کی طرف سے تشدد کی ایک نئی لہر شروع ہوئی تو عمران خان کےلئےنئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ تشدّد کسی ایسے طالبان لیڈر نے شروع کیا جس کا تعلق اُن کے زیر انتظام صُوبے سے ہو۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اگرچہ پاکستانی وزیر داخلہ کو اصرار ہے کہ حکومت عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے عہد پر قائم ہے، بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فضل اللہ نے حکومت کی طرف جو سخت گیر پالیسی اپنا رکھی ہے اُس کے پیش نظر ان مذاکرات کا ہونا ممکن نہیں لگتا۔
اور پشاور میں سیکیورٹی کے معروف تجزیہ کار محمود شاہ کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ فضل اللہ کے سربراہ بن جانے سے اب امن مذاکرات کی اب کوئی تُک نہیں رہی، اور حکومت کو چاہئے کہ وُہ مذاکرات کرنے کی تجویز پر از سر نو غور کرے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ سنہ 2007 میں ملا فضل اللہ نےجنگجؤوں کے ایک ٹولے کی مدد سے سوات کی پُرامن وادی پر قبضہ کرکے وہاں اپنا ظالم راج قائم کیا تھا، جس میں عورتوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے اور ٹیلی وژن موسیقی اور ناچ پر مکمّل پابندی تھی۔ فضل اللہ کے مظالم کی روئداد ملالہ یوسف زئی نے اپنی ڈائری میں قلمبند کی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کا نیا نائب امیر خالد حقّانی صوابی میں سرگرم ہے جو اسلام آباد سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ ملک کے شمال مغرب میں سیاست دانوں اور خاص طور پر سیکیولر عقائد کی عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان پر باربار ہونے والے حملوں کے پیچھے اُسی کے جنگجؤوں کا ہاتھ تھا۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ کے مطابق ملا فضل اللہ کو امیر بنانے کا اعلان طالبان کے نگران لیڈر عصمت اللہ شاہین نے کسی نا معلوم جگہ سے میڈیا کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کیا، اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے قسم کھائی کہ طالبان حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا انتقام لیں گے۔ شاہین نے کہا کہ فضل اللہ کے تقرر سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا ہے کہ طالبان دھڑوں کے درمیان اختلافات ہیں اور یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ وہ متحد اور منظُم ہیں۔
اخبار نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ فضل اللہ کا پہلا چیلنج محسود کے وفادار لشکریوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے، جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔بعض اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فضل اللہ کئی سال سے افغانستان میں مقیم ہے اور یوں اس کے تقرر کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان کے طالبان کے باہمی تعلّقات مستحکم ہونگے۔
ملّا فضل اللہ کا سرعام کوڑے لگانے، لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے، اُن کے سر قلم کرنے اور ریڈیو پر گرجدار تقریریں کرنے کا بھی شُہرہ ہے۔ جن میں وہ اور باتوں کے علاوہ پولیو کے قطرے پلانے کی مذمت کرتا تھا اور جس وجہ سے بعض حلقوں میں وہ ملّا ریڈیو کے نام سے پہچانےجانے لگا۔
شمالی وزیرستان کا قبائیلی علاقہ فضل اللہ کے تقرر کی خوشی میں چلائی گئی گولیوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ لیکن، جیسا کہ تجزیہ کار نے کہا ہے، نواز شریف کی حکومت کی طرف سے اس پر گرمجوشی کے اظہار کا کم امکا ن ہے۔
سابق طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر ان کی حکوت کے عہدہ داروں نے امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ محسود کے ساتھ ان کے امن مذاکرات ہونے ہی والے تھے۔ لیکن والش کہتے ہیں کہ کسی کو یقین نہیں تھا کہ ان مذاکرات کی کامیابی کا کوئی امکان ہے، خود ملا فضل اللہ کو ، جو سنہ 2009 میں سابقہ امن معاہدے سے مکر گیا تھا۔ اس سے بھی کم امید ہے،بلکہ طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ مزید کوئی مذاکرات نہیں ہونگے، کیونکہ ملا فضل اللہ پہلے ہی سے مذاکرات کے خلاف ہے۔ بلکہ، اس نے دہمکی دی ہے کہ طالبان پنجاب میں وفاقی حکومت کے خلاف انتقامی حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شاہد نے نواز شریف پر امریکیوں کے ساتھ حکیم اللہ کے سر کا سودا کرنے کا الزام لگایا۔
فضل اللہ کے بارے میں والش کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کا مطلولبہ دُشمن ہے، جو سنہ 2009 میں سوات میں فوج کی زبردست کاروائی کے بعد وہاں سے بھاگ کر نورستان، افغانستان میں پناہ گزین ہوگیا تھا، جہاں سے اس نے پاکستان پر حملے شروع کردئے،
جن میں ملالہ یوسف زئی کو قتل کرنے کی کوشش شامل ہے۔
اس سال فضل اللہ کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی، جب اس کے لشکریوں نے دِیر میں ایک پاکستانی جنرل کو جان سے مار دیا۔
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ملا فضل اللہ کا عروج تحریک انصاف کے عمران خان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، جنہوں نے دہمکی دے رکھی ہے کہ اگر 20 نومبر کے بعد امریکی ڈرون حملے بند نہ ہوئے، تو نیٹو کے رسد کے راستے بند کر دئے جائیں گے، اور طالبان کی طرف سے تشدد کی ایک نئی لہر شروع ہوئی تو عمران خان کےلئےنئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ تشدّد کسی ایسے طالبان لیڈر نے شروع کیا جس کا تعلق اُن کے زیر انتظام صُوبے سے ہو۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اگرچہ پاکستانی وزیر داخلہ کو اصرار ہے کہ حکومت عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے عہد پر قائم ہے، بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فضل اللہ نے حکومت کی طرف جو سخت گیر پالیسی اپنا رکھی ہے اُس کے پیش نظر ان مذاکرات کا ہونا ممکن نہیں لگتا۔
اور پشاور میں سیکیورٹی کے معروف تجزیہ کار محمود شاہ کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ فضل اللہ کے سربراہ بن جانے سے اب امن مذاکرات کی اب کوئی تُک نہیں رہی، اور حکومت کو چاہئے کہ وُہ مذاکرات کرنے کی تجویز پر از سر نو غور کرے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ سنہ 2007 میں ملا فضل اللہ نےجنگجؤوں کے ایک ٹولے کی مدد سے سوات کی پُرامن وادی پر قبضہ کرکے وہاں اپنا ظالم راج قائم کیا تھا، جس میں عورتوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے اور ٹیلی وژن موسیقی اور ناچ پر مکمّل پابندی تھی۔ فضل اللہ کے مظالم کی روئداد ملالہ یوسف زئی نے اپنی ڈائری میں قلمبند کی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کا نیا نائب امیر خالد حقّانی صوابی میں سرگرم ہے جو اسلام آباد سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ ملک کے شمال مغرب میں سیاست دانوں اور خاص طور پر سیکیولر عقائد کی عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان پر باربار ہونے والے حملوں کے پیچھے اُسی کے جنگجؤوں کا ہاتھ تھا۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ کے مطابق ملا فضل اللہ کو امیر بنانے کا اعلان طالبان کے نگران لیڈر عصمت اللہ شاہین نے کسی نا معلوم جگہ سے میڈیا کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کیا، اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے قسم کھائی کہ طالبان حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا انتقام لیں گے۔ شاہین نے کہا کہ فضل اللہ کے تقرر سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا ہے کہ طالبان دھڑوں کے درمیان اختلافات ہیں اور یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ وہ متحد اور منظُم ہیں۔
اخبار نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ فضل اللہ کا پہلا چیلنج محسود کے وفادار لشکریوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے، جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔بعض اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فضل اللہ کئی سال سے افغانستان میں مقیم ہے اور یوں اس کے تقرر کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان کے طالبان کے باہمی تعلّقات مستحکم ہونگے۔