واشنگٹن —
ہندوستان میں دہلی کے صوبے میں بدعنوانیوں کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد کرنے والوں کے ایک نمایاں لیڈر اروِند کیجری وال کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اُن کی حیرت انگیز انتخابی کار کردگی نے ملک کے روائتی سیاسی طبقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی، جو صرف ایک سال قبل وجود میں آئی تھی، بدعنوانی کے خلاف اُس ملک گیر تحریک کا نتیجہ ہے، جس میں متّوسّط طبقے کے دسیوں ہزاروں لوگ سرکاری اداروں میں رشوت کی علّت کے خلاف احتجاج کرنے کےلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
رام لیلیٰ گراؤنڈ میں ایک عظیم مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کیجری وال نےکہا، ’دو سال قبل کسی کے وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا کہ اس ملک میں اس قسم کا انقلاب آئے گا۔‘
اور، اخبار کہتا ہے کہ ہندستان کے دارالحکومت میں مسٹر کیجری وال کا بر سر اقتدار آنا اُس وسیع تر تحریک کی طرف ایک اشارہ ہے جو دُنیا کے اس سب سے بڑے جمہوری ملک کے اندر اگلے سال کے عام انتخابات میں لوگوں، پارٹیوں اور پالیسیوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔
مسٹر کیجری وال نے کانگریس پارٹی کی حمائت سے اقتدار سنبھالا ہے، اُنہوں نے وزیر اعلیٰ کے لئے مخصوص شاندار کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے اور اپنے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اُن سرکاری گاڑیوں میں سفر کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو صاحب اقتدار طبقے کا طرّہٴ امتیاز بن چُکا ہے۔
اُنہوں نے عام آدمیوں کے ساتھ میٹرو ٹرین سے سفر کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے ساتھ جن چھ وزیروں نے حلاف اُٹھایا ہے وہ سابق انجنئیر، وکیل اور صحافی ہیں، جو پہلے کبھی وزیر نہیں تھے۔ سویٹر اور گاندھی ٹوپی میں ملبوس کیجری وال نے اپنی پہلی تقریر میں زور دے کر کہا کہ رشوت ستانی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر حکومت کا کوئی فرد آپ سے رشوت مانگے۔ تو انکار مت کریں اور ہم آپ کو جو نمبر دیں گے اُس پر آپ ہمیں فون کریں، تاکہ ہم رشوت خور کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے سال مئی کے اواخر میں جو عام انتخابات ہونگے، اُن میں عام آدمی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خاصے ووٹ کاٹ سکے گی۔ اس وقت رائے عامّہ کے جائزوں کے مطابق، جنتا پارٹی، حکمراں کانگریس پارٹی سے آگے نکل چُکی ہے اور اُس نے شہروں میں رہنے والے متوسّط طبقے پر بُہت زیادہ تکیہ کر رکھا ہے۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی انٹلی جنس اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اگلے سال امریکی فوجیں افغانستان سے مکمل طور طور پر نکل آئیں، تو اُس کے باغی ملک کے کلیدی علاقوں پر فوراً قبضہ کرلیں گے اور سنہ 2015 تک دارالحکومت کابل کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ قومی انٹلی جنس کے اس تخمینے سے، جو حال ہی میں وہائٹ ہاؤس کو دیا گیا ہے، بعض امریکی عہدہ داروں کو سخت تشویش ہوئی ہے۔ اور، جیسا کہ اخبار کہتا ہے پہلی مرتبہ انٹلی جنس نے انتباہ کیا ہے کہ امریکی انخلاٴ کے چند ماہ کے اندر اندر کابل کو باغی طالبان کی طرف سے زیادہ سنگین حملے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اخبار نے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حقیقت سے قطع نظر کہ امریکی فوجیں پیچھے چھوڑی جاتی ہیں یا نہیں، سیکیورٹی کی صورت حال غالباً بد سے بد تر ہو جائے گی۔ یہ تجزیہ ایسے وقت آیا ہے، جب افغانستان میں اتّحادی فوجوں کے اعلیٰ کماندڑ جنرل جوزیف ڈنفورڈ نے افغانستان میں اپنے پیچھے بارہ ہزار نیٹو فوجیں برقرار رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔
اخبار کے مطابق، اس ماہ صدر اوبامہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں انہوں نے تجویز کیا تھا کہ ان میں سے آٹھ ہزار امریکی فوجیں ہوں اور چار ہزار دوسرے مما لک کی، ڈنفورڈ کی اس تجویز کے تحت، اس فورس کا چھٹا حصہ یعنی لگ بھگ دو ہزار فوجی انسداد دہشت گردی کے اوپریشنز کے لئے وقف ہونگے، اور باقی ماندہ فوجی، افغان کمانڈروں کو امداد، تربیت اور مشاورت فراہم کریں گے۔
لیکن، بیشتر عملی لڑائی میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ ماسواٴ اپنی حفاظت کے لئے۔
ڈنفورڈ نے انتباہ کیا ہے کہ بارہ ہزار سے کم تعداد میں فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی فوجی اڈّوں کی حفاظت کرنے کے لئے کافی نہیں ہونگے۔ ڈنفورڈ کی تجویز کے مطابق اگر یہ فورس کسی مجبوری کی وجہ سے بارہ ہزار سے کم کرنی پڑے، تو اُس صورت میں صرف چند سو افراد پر مشتمل ایک چھوٹا دستہ وہاں پیچھے چھوڑا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنرل ڈنفورڈ کی ان سفارشات پر اوبامہ انتظامیہ میں بحث چل رہی ہے کہ آیا امریکہ کو سنہ 2014 کے بعد افغانستان میں کُچھ فو ج چھوڑنی چاہئے یا نہیں۔ اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ افغانستان کا استحکام اب امریکہ کے لئے تشویش کا باعث نہیں رہا۔ کیونکہ، اب یہ ملک اُن دہشت گرد جتھوں کے لئے اتنی اہم آماجگاہ نہیں رہا، جو امریکہ کے اندر اہداف کو نشانہ بنا سکیں۔
’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ تیل نکالنے کے لئے ’فریکنگ‘ کا جو نیا طریقہ وضع کیا گیا ہے، اُس کی وجہ سے اب امریکہ چند سال قبل کی توقّعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیل پیدا کر رہا ہے، جس کی بدولت ایک تو ملک کے اندرونی کاروبار کو تقویت ملتی ہے، اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے تلاطم خیز خطّے پر ملک کا انحصار کم ہوتا ہے۔
اخبار نے امریکہ سے تیل کی برآمد پر لگی ہوئی پابندی کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ ملک میں توانائی کی پیداوار کی وسعت سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا ہے۔
اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی، جو صرف ایک سال قبل وجود میں آئی تھی، بدعنوانی کے خلاف اُس ملک گیر تحریک کا نتیجہ ہے، جس میں متّوسّط طبقے کے دسیوں ہزاروں لوگ سرکاری اداروں میں رشوت کی علّت کے خلاف احتجاج کرنے کےلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
رام لیلیٰ گراؤنڈ میں ایک عظیم مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کیجری وال نےکہا، ’دو سال قبل کسی کے وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا کہ اس ملک میں اس قسم کا انقلاب آئے گا۔‘
اور، اخبار کہتا ہے کہ ہندستان کے دارالحکومت میں مسٹر کیجری وال کا بر سر اقتدار آنا اُس وسیع تر تحریک کی طرف ایک اشارہ ہے جو دُنیا کے اس سب سے بڑے جمہوری ملک کے اندر اگلے سال کے عام انتخابات میں لوگوں، پارٹیوں اور پالیسیوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔
مسٹر کیجری وال نے کانگریس پارٹی کی حمائت سے اقتدار سنبھالا ہے، اُنہوں نے وزیر اعلیٰ کے لئے مخصوص شاندار کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے اور اپنے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اُن سرکاری گاڑیوں میں سفر کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو صاحب اقتدار طبقے کا طرّہٴ امتیاز بن چُکا ہے۔
اُنہوں نے عام آدمیوں کے ساتھ میٹرو ٹرین سے سفر کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے ساتھ جن چھ وزیروں نے حلاف اُٹھایا ہے وہ سابق انجنئیر، وکیل اور صحافی ہیں، جو پہلے کبھی وزیر نہیں تھے۔ سویٹر اور گاندھی ٹوپی میں ملبوس کیجری وال نے اپنی پہلی تقریر میں زور دے کر کہا کہ رشوت ستانی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر حکومت کا کوئی فرد آپ سے رشوت مانگے۔ تو انکار مت کریں اور ہم آپ کو جو نمبر دیں گے اُس پر آپ ہمیں فون کریں، تاکہ ہم رشوت خور کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے سال مئی کے اواخر میں جو عام انتخابات ہونگے، اُن میں عام آدمی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خاصے ووٹ کاٹ سکے گی۔ اس وقت رائے عامّہ کے جائزوں کے مطابق، جنتا پارٹی، حکمراں کانگریس پارٹی سے آگے نکل چُکی ہے اور اُس نے شہروں میں رہنے والے متوسّط طبقے پر بُہت زیادہ تکیہ کر رکھا ہے۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی انٹلی جنس اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اگلے سال امریکی فوجیں افغانستان سے مکمل طور طور پر نکل آئیں، تو اُس کے باغی ملک کے کلیدی علاقوں پر فوراً قبضہ کرلیں گے اور سنہ 2015 تک دارالحکومت کابل کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ قومی انٹلی جنس کے اس تخمینے سے، جو حال ہی میں وہائٹ ہاؤس کو دیا گیا ہے، بعض امریکی عہدہ داروں کو سخت تشویش ہوئی ہے۔ اور، جیسا کہ اخبار کہتا ہے پہلی مرتبہ انٹلی جنس نے انتباہ کیا ہے کہ امریکی انخلاٴ کے چند ماہ کے اندر اندر کابل کو باغی طالبان کی طرف سے زیادہ سنگین حملے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اخبار نے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حقیقت سے قطع نظر کہ امریکی فوجیں پیچھے چھوڑی جاتی ہیں یا نہیں، سیکیورٹی کی صورت حال غالباً بد سے بد تر ہو جائے گی۔ یہ تجزیہ ایسے وقت آیا ہے، جب افغانستان میں اتّحادی فوجوں کے اعلیٰ کماندڑ جنرل جوزیف ڈنفورڈ نے افغانستان میں اپنے پیچھے بارہ ہزار نیٹو فوجیں برقرار رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔
اخبار کے مطابق، اس ماہ صدر اوبامہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں انہوں نے تجویز کیا تھا کہ ان میں سے آٹھ ہزار امریکی فوجیں ہوں اور چار ہزار دوسرے مما لک کی، ڈنفورڈ کی اس تجویز کے تحت، اس فورس کا چھٹا حصہ یعنی لگ بھگ دو ہزار فوجی انسداد دہشت گردی کے اوپریشنز کے لئے وقف ہونگے، اور باقی ماندہ فوجی، افغان کمانڈروں کو امداد، تربیت اور مشاورت فراہم کریں گے۔
لیکن، بیشتر عملی لڑائی میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ ماسواٴ اپنی حفاظت کے لئے۔
ڈنفورڈ نے انتباہ کیا ہے کہ بارہ ہزار سے کم تعداد میں فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی فوجی اڈّوں کی حفاظت کرنے کے لئے کافی نہیں ہونگے۔ ڈنفورڈ کی تجویز کے مطابق اگر یہ فورس کسی مجبوری کی وجہ سے بارہ ہزار سے کم کرنی پڑے، تو اُس صورت میں صرف چند سو افراد پر مشتمل ایک چھوٹا دستہ وہاں پیچھے چھوڑا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنرل ڈنفورڈ کی ان سفارشات پر اوبامہ انتظامیہ میں بحث چل رہی ہے کہ آیا امریکہ کو سنہ 2014 کے بعد افغانستان میں کُچھ فو ج چھوڑنی چاہئے یا نہیں۔ اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ افغانستان کا استحکام اب امریکہ کے لئے تشویش کا باعث نہیں رہا۔ کیونکہ، اب یہ ملک اُن دہشت گرد جتھوں کے لئے اتنی اہم آماجگاہ نہیں رہا، جو امریکہ کے اندر اہداف کو نشانہ بنا سکیں۔
’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ تیل نکالنے کے لئے ’فریکنگ‘ کا جو نیا طریقہ وضع کیا گیا ہے، اُس کی وجہ سے اب امریکہ چند سال قبل کی توقّعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیل پیدا کر رہا ہے، جس کی بدولت ایک تو ملک کے اندرونی کاروبار کو تقویت ملتی ہے، اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے تلاطم خیز خطّے پر ملک کا انحصار کم ہوتا ہے۔
اخبار نے امریکہ سے تیل کی برآمد پر لگی ہوئی پابندی کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ ملک میں توانائی کی پیداوار کی وسعت سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا ہے۔