واشنگٹن —
’وال سٹریٹ جرنل‘ کی نامہ نگار اینابیل سائیمنگ ٹن نے کراچی سے ایک مکتوب میں بتایا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ لیفٹننٹ جنرل راحیل شریف کو ترقّی دے کر ملک کی فوج کا، جو دُنیا کی چھٹّی سب سے بڑی فوج ہے، نیا سربراہ مقرّر کیا ہے۔
نامہ نگار کے بقول، فوج کی قیادت کے لئے جنرل کیانی کی ترجیح لیفٹننٹ جنرل راشد محمود تھے، جنہیں ’جواینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کا چئیرمن بنایا گیا ہے۔
ٹیکنکل اعتبار سے یہ عہدہ ہے تو اُس سے بڑا، لیکن اس کی اہمیت بیشتر رسمی نوعیت کی ہے۔ چنانچہ، اخبار کے خیال میں، جنرل شریف کا تقرّر ٹیکنکل اعتبار سےاُلٹ پھیر کے زمرے میں آتا ہے، جس میں نواز شریف نے، جنرل کیانی کے بعد سب سے سینیر افسر جنرل ہارون اسلم کو نظرانداز کر دیا ہے۔
مغرب کے تعلیم یافتہ جنرل راحیل شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کے قریب ہیں۔ لیکن، ان کے رشتہ دار نہیں ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انہوں نے ملٹری اوپریشنز ڈئیریکٹوریٹ میں کبھی کام نہیں کیا ہے، جسے فوج میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور جہاں فوج کے تمام سابقہ سربراہوں کی تربیت ہوئی ہے۔ فو ج کے نئے سربراہ اس سے پہلے تربیت اور جانچ کے شعبے کے انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے ہیں، جس پر اُنہیں جنرل کیانی نے لگایا تھا۔
ایک اور سبکدوش ہونے والے افسر کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ اس تقرر کے بعد عام طور پر وقت سے پہلے ریٹائر کردیا جاتا ہے۔ جنرل راشد محمود کے چیف آف سٹاف مقرر ہونے پر، اخبار ایک ریٹائرڈ افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کو اس نظر سے دیکھا جائے گا کہ جنرل کیانی کے پسندیدہ امیدوار کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ کہ فو ج پر سویلین حکومت کی بالادستی از سر نو قائم کی جا رہی ہے۔
اخبار نے دفاعی امُور کی تجزیہ کار، عائشہ صدّیقہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل محمود کا تقرّر، فوج اور سویلین حکومت کے مابین اِس سمجھوتے کے تحت ہوا ہے کہ جوائینٹ چیفس آف سٹاف کی کمیٹی فوج کے کنٹرول میں رہے گی۔ یہ پوزیشن پہلی باری مسلّح افواج کی تینوں شاخوں یعنی بری فوج ، فضائیہ اور بحریہ کے حصّے میں آتی تھی۔ لیکن، سنہ 1990 کی دہائی سے اس پر فوج کا بلا شرکت غیرے مکمل تصرف رہا ہے۔
مسٹر شریف نے اس سے پہلے اشارہ دیا تھا کہ وہ یہ عہدہ بحریہ کو دیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس ملک میں، جہاں اکثر و بیشتر فوجی بغاوتیں ہوتی رہی ہیں، یہ نئی تبدیلی ایک ایسے وقت آئی ہے جب و ُہ سنہ 2014 میں افغانستان سےامریکی قیادت میں اتّحادی فوجوں کے انخلاٴ کے عواقب کے لئے تیاری کر رہا ہے۔
امریکہ کے فوجی اور سویلین عہد ہ دار، جن کا پاکستان کی فوج اور جنرل کیانی کے ساتھ قریبی سابقہ رہا ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان کا تعاون واشنگٹن کی علاقائی حکمت عملی کے لئے اہم ہے اور اُنہیں اُ مّید ہے کہ نئے چیف آف سٹاف کے دور میں اِسے برقرار رکھا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت کی امن کی مساعی کی ناکامی کی صورت میں نئے فوجی سربراہ کو شمالی وزیرستان کے قبائیلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف تازہ حملہ شروع کرنا پڑے گا۔ یوں بھی، فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے حکومت کے فیصلے کے بارے میں محتاط ہے۔ اور اگر فوج کے نئے سربراہ نےعسکریت پسندوں کی کمین گاہوں کے خلاف فوجی کاروائی کرنے پر زور دیا، تو شہری اور فوجی تعلّقات کے اس نازُک توازن پر دباؤ پڑے گا۔
اِسی موضوع پر، ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے لیفٹننٹ جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے، اُس کا مقصد فوجی قیادت کے ساتھ محاذ آرائی کے اُس خط کو عبور کرنے کی بجائے اُس سے بچ کر نکلنا تھا، جس نے سنہ 1999میں اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ راحیل شریف کا تعلّق بھی وزیر اعظم کی طرح لاہور سے ہے، جو فوجی اثر و نفوذ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اور جیسا کہ دفاعی امور کے مستند تجزیہ کار ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل طلعت مسعود نے کہا ہے کہ راحیل شریف کا تعلّق ایک فوجی گھرانے سے ہے، جسکی سیاست کے مقابلے میں سپہ گری میں دلچسپی زیادہ ہے۔چنانچہ، اس اعتبار سے وزیر اعظم کا اُن پر زیادہ اعتماد ہے۔
اخبار نے یاد دلایا ہے کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے سابقہ دور میں نواز شریف نے کئی سینیر جنرلوں کو نظر انداز کرکے، جنرل پرویز مشرّف کو فوج کا سربراہ بنا دیا تھا، جنہوں نے1999 میں انہیں گدی سے اتار کر خود اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے بیشتر لوگوں میں فوج کا اب بھی بڑا وقار ہے۔ اور جنرل کیانی کے دور میں فوج کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر زرداری کی سوِلین حکومت کے ساتھ سالہا سال کی افراتفری اور چپقلش کے باوجود، فوجی جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے تحمُّل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ملک کو جمہوریت کے عبوری دور سے گذرنے کا موقع دیا۔
نامہ نگار کے بقول، فوج کی قیادت کے لئے جنرل کیانی کی ترجیح لیفٹننٹ جنرل راشد محمود تھے، جنہیں ’جواینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کا چئیرمن بنایا گیا ہے۔
ٹیکنکل اعتبار سے یہ عہدہ ہے تو اُس سے بڑا، لیکن اس کی اہمیت بیشتر رسمی نوعیت کی ہے۔ چنانچہ، اخبار کے خیال میں، جنرل شریف کا تقرّر ٹیکنکل اعتبار سےاُلٹ پھیر کے زمرے میں آتا ہے، جس میں نواز شریف نے، جنرل کیانی کے بعد سب سے سینیر افسر جنرل ہارون اسلم کو نظرانداز کر دیا ہے۔
مغرب کے تعلیم یافتہ جنرل راحیل شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کے قریب ہیں۔ لیکن، ان کے رشتہ دار نہیں ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انہوں نے ملٹری اوپریشنز ڈئیریکٹوریٹ میں کبھی کام نہیں کیا ہے، جسے فوج میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور جہاں فوج کے تمام سابقہ سربراہوں کی تربیت ہوئی ہے۔ فو ج کے نئے سربراہ اس سے پہلے تربیت اور جانچ کے شعبے کے انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے ہیں، جس پر اُنہیں جنرل کیانی نے لگایا تھا۔
ایک اور سبکدوش ہونے والے افسر کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ اس تقرر کے بعد عام طور پر وقت سے پہلے ریٹائر کردیا جاتا ہے۔ جنرل راشد محمود کے چیف آف سٹاف مقرر ہونے پر، اخبار ایک ریٹائرڈ افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کو اس نظر سے دیکھا جائے گا کہ جنرل کیانی کے پسندیدہ امیدوار کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ کہ فو ج پر سویلین حکومت کی بالادستی از سر نو قائم کی جا رہی ہے۔
اخبار نے دفاعی امُور کی تجزیہ کار، عائشہ صدّیقہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل محمود کا تقرّر، فوج اور سویلین حکومت کے مابین اِس سمجھوتے کے تحت ہوا ہے کہ جوائینٹ چیفس آف سٹاف کی کمیٹی فوج کے کنٹرول میں رہے گی۔ یہ پوزیشن پہلی باری مسلّح افواج کی تینوں شاخوں یعنی بری فوج ، فضائیہ اور بحریہ کے حصّے میں آتی تھی۔ لیکن، سنہ 1990 کی دہائی سے اس پر فوج کا بلا شرکت غیرے مکمل تصرف رہا ہے۔
مسٹر شریف نے اس سے پہلے اشارہ دیا تھا کہ وہ یہ عہدہ بحریہ کو دیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس ملک میں، جہاں اکثر و بیشتر فوجی بغاوتیں ہوتی رہی ہیں، یہ نئی تبدیلی ایک ایسے وقت آئی ہے جب و ُہ سنہ 2014 میں افغانستان سےامریکی قیادت میں اتّحادی فوجوں کے انخلاٴ کے عواقب کے لئے تیاری کر رہا ہے۔
امریکہ کے فوجی اور سویلین عہد ہ دار، جن کا پاکستان کی فوج اور جنرل کیانی کے ساتھ قریبی سابقہ رہا ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان کا تعاون واشنگٹن کی علاقائی حکمت عملی کے لئے اہم ہے اور اُنہیں اُ مّید ہے کہ نئے چیف آف سٹاف کے دور میں اِسے برقرار رکھا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت کی امن کی مساعی کی ناکامی کی صورت میں نئے فوجی سربراہ کو شمالی وزیرستان کے قبائیلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف تازہ حملہ شروع کرنا پڑے گا۔ یوں بھی، فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے حکومت کے فیصلے کے بارے میں محتاط ہے۔ اور اگر فوج کے نئے سربراہ نےعسکریت پسندوں کی کمین گاہوں کے خلاف فوجی کاروائی کرنے پر زور دیا، تو شہری اور فوجی تعلّقات کے اس نازُک توازن پر دباؤ پڑے گا۔
اِسی موضوع پر، ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے لیفٹننٹ جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے، اُس کا مقصد فوجی قیادت کے ساتھ محاذ آرائی کے اُس خط کو عبور کرنے کی بجائے اُس سے بچ کر نکلنا تھا، جس نے سنہ 1999میں اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ راحیل شریف کا تعلّق بھی وزیر اعظم کی طرح لاہور سے ہے، جو فوجی اثر و نفوذ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اور جیسا کہ دفاعی امور کے مستند تجزیہ کار ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل طلعت مسعود نے کہا ہے کہ راحیل شریف کا تعلّق ایک فوجی گھرانے سے ہے، جسکی سیاست کے مقابلے میں سپہ گری میں دلچسپی زیادہ ہے۔چنانچہ، اس اعتبار سے وزیر اعظم کا اُن پر زیادہ اعتماد ہے۔
اخبار نے یاد دلایا ہے کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے سابقہ دور میں نواز شریف نے کئی سینیر جنرلوں کو نظر انداز کرکے، جنرل پرویز مشرّف کو فوج کا سربراہ بنا دیا تھا، جنہوں نے1999 میں انہیں گدی سے اتار کر خود اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے بیشتر لوگوں میں فوج کا اب بھی بڑا وقار ہے۔ اور جنرل کیانی کے دور میں فوج کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر زرداری کی سوِلین حکومت کے ساتھ سالہا سال کی افراتفری اور چپقلش کے باوجود، فوجی جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے تحمُّل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ملک کو جمہوریت کے عبوری دور سے گذرنے کا موقع دیا۔