واشنگٹن —
پچھلے تین عشروں سے زیادہ کی عداوت کے بعد، ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل پر ایک سمجھوتہ طے پایا ہے۔ اس کے بعد، جنوری میں ایک کانفرنس بلانے کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں شام کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لئے ثالثی کی کوشش کی جائے گی۔
اس پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ ان مذاکرات میں جو صدر اوبامہ کے اصرار پر ہو رہے ہیں۔ کامیابی یقینی نہیں ہے۔ بلکہ، حالات شائد خلاف ہی ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود، دونوں واقعات اس بات کی واضح علامت ہیں کہ سفارت کاری، جو مصلحت کا فن ہے، ایک بار پھر امریکی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل کر چُکی ہے، اور یہ سرگرم سفارت کاری 11 ستمبر کے بعد کے اُس دور کے اختتام کی علامت ہے جس دوران دو بڑی جنگیں لڑی گئیں اور اُس اسلامی دہشتگردی کے خلاف بھی لڑائی لڑی گئی، جس کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں جانا پڑا۔ اور جس کی وجہ سے اُسے اب بھی پاکستان اور یمن میں ڈرون طیارے اُڑانے پڑ رہے ہیں۔
یہ اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی فوجی طاقت کے استعمال میں تخفیف کی گئی ہے۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی حکومتیں جیسی بھی ہوں ان کے ساتھ لین دین کیا جا رہا ہے اور ایسے نئے لیڈروں کے لئے دباؤ نہیں ڈالا جا رہا جو امریکی اقدار کے حامی ہوں۔
ایران ہو یا شام حکومتیں بدلنے کا تصور ترک کر دیا گیا ہے، اس کے بدلے سابق غنیموں کے ساتھ سودا کرنے کی روائت ڈالی جا رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کے لئے سفارت کاری میں یہ تبدیلی ان کی سنہ 2008 کی انتخابی مہم کے اُس عہد کی پاس داری ہے، جس کا مقصد امریکہ کے دُشمنوں کی طرف ہاتھ بڑھانا اور کسی بھی غیر ملکی لیڈر کے ساتھ بغیر پیشگی شرائط کے بات چیت کرنا ہے۔
سفارت کاری پر مسٹر اوبامہ کے اصرار سے قطع نظر، تجزیہ کاروں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ امریکہ کو اکثر و بیشتر دوسروں کی طرف سے پہل کرنے کا انتظار رہتا ہے۔
ایران کے معاملے میں یہ حسن روحانی کے صدرمنتخب ہونے سے ممکن ہوا جنہیں ایران کے خلاف کڑی تعزیرات میں نرمی حاصل کرنے کا مینڈیٹ ملا تھا، جب کہ شام کے معاملے میں روس کی وُہ تجویز تھی جس کے تحت صدر بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پر تیار ہو گئے، جسے وہائٹ ہاؤس نے قبول کیا اور اس پر فوجی حملےکر نے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے مسٹر اسد کو اقتدار سے علیٰحدہ ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن، سفارتی کوششیں اس کو حقیقت کا جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہیں۔ بلکہ، اگلے ماہ اس سلسلے میں جینیوا میں ہونے والی کانفرنس سےشائد یہی ظاہر ہوگا کہ اقتدار سے علیٰحدگی تو درکنار مسٹر اسد اپنے پنجے اور مضبوطی کے ساتھ گاڑ رہے ہیں۔
اسی طرح ایران میں انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وُہ سیکیورٹی کے مخصوص خطروں کے پیش نظر اسلحے پر کنٹرول کے ایک معاہدے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن، ایران کے ساتھ ایک وسیع تر سمجھوتہ بہت دور کی بات لگتی ہے جس کے تحت ایران کو شام اور افغانستان جیسے علاقائی امور میں شراکت دار بنایا جاسکے۔
’شکاگو ٹربیون‘ کے مطابق، ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے اقتدار کے 99 ویں روز جوہری پروگرام پر سمجھوتہ کیا ہے، اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ کارنامہ اقتدار کے 100 دن کے اندر اندر سر انجام دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے وہ امریکی صدر کے اقتدار کے اولّیں 100 دن کی کارکردگی سے اپنا موازنہ کر رہے تھے۔ چنانچہ، اخبار کا خیال ہے کہ، اُن کی طرف سے امریکی سیاسی اصطلاح کا یہ وِرد غالباً اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر شائد چھ ماہ کے عرصے کے اندر اندر ہی کوئی حتمی معاہدہ طے پا جائے۔
اخبار کے اس تجزئے میں ایران کی جوہری صلاحیت کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس کی اس رائے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کے مطابق ایران کے پاس اتنی سائینسی، فنّیاتی اور صنعتی استعداد ہے کہ اگر وُہ چاہتا تو جوہری بم بنا سکتا تھا۔ لیکن، جیسا کہ انٹلی جنس کے اہل کاروں نے کہا ہے، اس کے لیڈروں نے ایسا کرنے سے احتراز کیا۔ چنانچہ، اگلے چھ ماہ کے دوران مذاکرات میں، جیسا کہ صدر اوبامہ نے کہا ہے، ایک ایسا سمجھوتہ وضع کیا جائے گا جس سے اس بات کی تصدیق ہو سکے گی کہ ایران کا پروگرام پُرامن ہے جو بم نہیں بنا ئے گا۔
اور آخر میں این بی سی ٹی وی سے نشر ہونے والی رائیٹر کی ہیومن رائٹس واچ کے بارے میں یہ خبر کہ اُس نے افغانستان کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وُ ہ زنا کے مجرموں کے لئے پبلک میں پتھرمار مار کر ہلاک کرنے کی سزا کو دوبارہ قانون میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر ے۔ یہ قانون طالبان کے دور حکومت میں رائج کیا گیا تھا۔
اس پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ ان مذاکرات میں جو صدر اوبامہ کے اصرار پر ہو رہے ہیں۔ کامیابی یقینی نہیں ہے۔ بلکہ، حالات شائد خلاف ہی ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود، دونوں واقعات اس بات کی واضح علامت ہیں کہ سفارت کاری، جو مصلحت کا فن ہے، ایک بار پھر امریکی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل کر چُکی ہے، اور یہ سرگرم سفارت کاری 11 ستمبر کے بعد کے اُس دور کے اختتام کی علامت ہے جس دوران دو بڑی جنگیں لڑی گئیں اور اُس اسلامی دہشتگردی کے خلاف بھی لڑائی لڑی گئی، جس کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں جانا پڑا۔ اور جس کی وجہ سے اُسے اب بھی پاکستان اور یمن میں ڈرون طیارے اُڑانے پڑ رہے ہیں۔
یہ اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی فوجی طاقت کے استعمال میں تخفیف کی گئی ہے۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی حکومتیں جیسی بھی ہوں ان کے ساتھ لین دین کیا جا رہا ہے اور ایسے نئے لیڈروں کے لئے دباؤ نہیں ڈالا جا رہا جو امریکی اقدار کے حامی ہوں۔
ایران ہو یا شام حکومتیں بدلنے کا تصور ترک کر دیا گیا ہے، اس کے بدلے سابق غنیموں کے ساتھ سودا کرنے کی روائت ڈالی جا رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کے لئے سفارت کاری میں یہ تبدیلی ان کی سنہ 2008 کی انتخابی مہم کے اُس عہد کی پاس داری ہے، جس کا مقصد امریکہ کے دُشمنوں کی طرف ہاتھ بڑھانا اور کسی بھی غیر ملکی لیڈر کے ساتھ بغیر پیشگی شرائط کے بات چیت کرنا ہے۔
سفارت کاری پر مسٹر اوبامہ کے اصرار سے قطع نظر، تجزیہ کاروں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ امریکہ کو اکثر و بیشتر دوسروں کی طرف سے پہل کرنے کا انتظار رہتا ہے۔
ایران کے معاملے میں یہ حسن روحانی کے صدرمنتخب ہونے سے ممکن ہوا جنہیں ایران کے خلاف کڑی تعزیرات میں نرمی حاصل کرنے کا مینڈیٹ ملا تھا، جب کہ شام کے معاملے میں روس کی وُہ تجویز تھی جس کے تحت صدر بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پر تیار ہو گئے، جسے وہائٹ ہاؤس نے قبول کیا اور اس پر فوجی حملےکر نے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے مسٹر اسد کو اقتدار سے علیٰحدہ ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن، سفارتی کوششیں اس کو حقیقت کا جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہیں۔ بلکہ، اگلے ماہ اس سلسلے میں جینیوا میں ہونے والی کانفرنس سےشائد یہی ظاہر ہوگا کہ اقتدار سے علیٰحدگی تو درکنار مسٹر اسد اپنے پنجے اور مضبوطی کے ساتھ گاڑ رہے ہیں۔
اسی طرح ایران میں انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وُہ سیکیورٹی کے مخصوص خطروں کے پیش نظر اسلحے پر کنٹرول کے ایک معاہدے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن، ایران کے ساتھ ایک وسیع تر سمجھوتہ بہت دور کی بات لگتی ہے جس کے تحت ایران کو شام اور افغانستان جیسے علاقائی امور میں شراکت دار بنایا جاسکے۔
’شکاگو ٹربیون‘ کے مطابق، ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے اقتدار کے 99 ویں روز جوہری پروگرام پر سمجھوتہ کیا ہے، اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ کارنامہ اقتدار کے 100 دن کے اندر اندر سر انجام دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے وہ امریکی صدر کے اقتدار کے اولّیں 100 دن کی کارکردگی سے اپنا موازنہ کر رہے تھے۔ چنانچہ، اخبار کا خیال ہے کہ، اُن کی طرف سے امریکی سیاسی اصطلاح کا یہ وِرد غالباً اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر شائد چھ ماہ کے عرصے کے اندر اندر ہی کوئی حتمی معاہدہ طے پا جائے۔
اخبار کے اس تجزئے میں ایران کی جوہری صلاحیت کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس کی اس رائے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کے مطابق ایران کے پاس اتنی سائینسی، فنّیاتی اور صنعتی استعداد ہے کہ اگر وُہ چاہتا تو جوہری بم بنا سکتا تھا۔ لیکن، جیسا کہ انٹلی جنس کے اہل کاروں نے کہا ہے، اس کے لیڈروں نے ایسا کرنے سے احتراز کیا۔ چنانچہ، اگلے چھ ماہ کے دوران مذاکرات میں، جیسا کہ صدر اوبامہ نے کہا ہے، ایک ایسا سمجھوتہ وضع کیا جائے گا جس سے اس بات کی تصدیق ہو سکے گی کہ ایران کا پروگرام پُرامن ہے جو بم نہیں بنا ئے گا۔
اور آخر میں این بی سی ٹی وی سے نشر ہونے والی رائیٹر کی ہیومن رائٹس واچ کے بارے میں یہ خبر کہ اُس نے افغانستان کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وُ ہ زنا کے مجرموں کے لئے پبلک میں پتھرمار مار کر ہلاک کرنے کی سزا کو دوبارہ قانون میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر ے۔ یہ قانون طالبان کے دور حکومت میں رائج کیا گیا تھا۔