سعودی عرب نے بھی دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔
سعودی عرب کا بھی کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے مکمل حل کی جانب پہلا قدم ’’ہو سکتا ہے اگر اس حوالے سے خیر سگالی کے جذبات پائے جائیں‘‘۔
چھ عالمی طاقتوں سے اتوار کو ہونے والا معاہدے کے تحت ایران آئندہ چھ ماہ میں اپنے جوہری پروگرام کو محدود اور کچھ تنصیبات میں کام روکنے پر رضا مند ہو گیا ہے۔ اس کے بدلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور یہ عالمی طاقتیں ایران پر عائد اقتصادی تعزیرات میں نرمی کریں گیں۔
حالیہ مہینوں میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات میں تناؤ پیدا ہوا تھا۔ ریاض کو ہمیشہ سے یہ خوف رہا ہے کہ تہران اپنی جوہری سرگرمیوں کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کر لے گا جو کہ اس کے مفادات کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
پیر کو جاری بیان میں سعودی حکومت کا کہنا تھا کہ جینوا میں ہونے والے معاہدے کے بعد ایک جامع حل سامنے آنا چاہیئے ’’جس سے مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں، بالخصوص جوہری (ہتھیاروں) کا خاتمہ ہو‘‘۔
ریاض کی جانب سے کچھ غیر واضح اقدامات کا مطالبہ بھی سامنا آیا جس میں کہا گیا کہ ’’پرامن جوہری توانائی کے استعمال کے حوالے سے علاقائی ممالک کے حق کو یقینی بنایا جائے‘‘۔
شام، عراق، متحدہ عرب امارات اور بحرین پہلے ہی اس امید کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام کے معاہدے سے علاقائی امن و سلامتی محفوظ ہو سکے گی۔
سعودی عرب کا بھی کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے مکمل حل کی جانب پہلا قدم ’’ہو سکتا ہے اگر اس حوالے سے خیر سگالی کے جذبات پائے جائیں‘‘۔
چھ عالمی طاقتوں سے اتوار کو ہونے والا معاہدے کے تحت ایران آئندہ چھ ماہ میں اپنے جوہری پروگرام کو محدود اور کچھ تنصیبات میں کام روکنے پر رضا مند ہو گیا ہے۔ اس کے بدلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور یہ عالمی طاقتیں ایران پر عائد اقتصادی تعزیرات میں نرمی کریں گیں۔
حالیہ مہینوں میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات میں تناؤ پیدا ہوا تھا۔ ریاض کو ہمیشہ سے یہ خوف رہا ہے کہ تہران اپنی جوہری سرگرمیوں کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کر لے گا جو کہ اس کے مفادات کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
پیر کو جاری بیان میں سعودی حکومت کا کہنا تھا کہ جینوا میں ہونے والے معاہدے کے بعد ایک جامع حل سامنے آنا چاہیئے ’’جس سے مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں، بالخصوص جوہری (ہتھیاروں) کا خاتمہ ہو‘‘۔
ریاض کی جانب سے کچھ غیر واضح اقدامات کا مطالبہ بھی سامنا آیا جس میں کہا گیا کہ ’’پرامن جوہری توانائی کے استعمال کے حوالے سے علاقائی ممالک کے حق کو یقینی بنایا جائے‘‘۔
شام، عراق، متحدہ عرب امارات اور بحرین پہلے ہی اس امید کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام کے معاہدے سے علاقائی امن و سلامتی محفوظ ہو سکے گی۔