واشنگٹن —
’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ عراقی وزیر خارجہ، ہوشیار زیباری نے افغان صدر حامد کرزئی کو مشورہ دیا ہے کہ وُہ امریکہ کے ساتھ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور اس کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر زیباری، مسٹر کرزئی کے پرانے دوست ہیں اور وُہ اس لئے کابل کے دورے پر آئے تھے تاکہ افغان شیعوں کے لئے عراق کے مقدّس مقامات کی زیارت کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ دو سال پہلےکسی عراقی عہدہ دار کی طرف سے مسٹر کرزئی کے لئے اس قسم کے مشورے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اور اب مسٹر زیباری نے افغان صدر کو یاد دلایا ہے کہ دو سال قبل امریکی عراق سے نکل آنے پر بالکل تیار تھے اور وہ افغانستان سے بھی انخلاء کے لئے تیار ہونگے؛ اور عراق نے امریکی فوجوں کا ایک دستہ وہاں پیچھے چھوڑنے کے بارے میں سمجھوتے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا، تو تمام امریکی فوجیں وہاں سے نکل آئیں۔
اُس وقت قومی جذبے سے سرشار بُہت سے عراقیوں نے شادیانے منائے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی اپنی حکومت میں امن و امان برقرار رکھنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن، اس کے بعد ہوا یہ کہ عراق میں پھر سے تشدّد کی وباء پھوٹ پڑی اور صرف رواں سال کے دوران، ہزاروں انسانی جانیں فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ مسٹر زیباری نے افغان صدر کو بتایا کہ عراقی حکومت بغداد تک کو حفاظت فراہم نہیں کرسکی۔ باوجودیکہ، تیل سے اُس کی آمدنی اربوں ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور اُس کے پاس تربیت یافتہ سیکیورٹی فوجیں ہیں۔ اس کے برعکس، افغان حکومت، جو اپنے اخراجات کی محض 20 فیصد کی کفالت کرسکتی ہے، کس طرح امریکی امداد کے بغیر اس ملک پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی توقع کر سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق، مسٹر زیباری نے ایک ٹیلیفوں انٹرویو میں بتایا کہ عراق سےامریکی انخلاء کے دو سال بعد، بڑھتے ہوئے تشدّد کے بعد، وزیر اعظم نوری المالکی کو حمائت اور فوجی امداد کے لئے پھر امریکہ سے رجوع کرنا پڑا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے ماہ قبائیلی سرداروں کا لویا جرگہ امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنے کی اہمیت کا اظہار تھا، اور اس بات کا اشارہ بھی کہ افغان پبلک کا ایک طبقہ امریکی امداد جاری رکھنے کی حمائت کرتا ہے، اور اس نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ وُہ مسٹر کرزئی کی ہٹ دھرمی کے لئے افغان عوام کو اس کی سزا نہیں دینا چاہتے۔
اخبار کے بقول، کرزئی حکومت کے سینیئر وزیر، بشمول وزیر دفاع اور وزیر داخلہ، اس سے بالکل بے خبر تھے کہ وُہ اس سمجھوتے میں تاخیر چاہتے ہیں۔
پچھلے ہفتے، امریکہ اور روس نے تاریخ کے سب سے کامیاب جوہری عدم پھیلاؤ کے پروگرام کی تکمیل منائی۔ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق، ہفتے کے دوران، کم افزودگی والے یورینیم کی آخری کھیپ امریکی ریاست میری لینڈ کی بالٹی مور کی بندرگاہ پہنچا دی گئی، جو پانچ سو ٹن انتہائی افزودہ یورنیم سے نکالا گیا تھا۔ اس طرح، روس اور امریکہ کےدرمیان سنہ 1993 میں نہائت ہی افزودہ یورینیم کی خرید کا جو معاہدہ طے پایا تھا، وُہ پایہٴ تکمیل کو پہنچ گیا۔ یہ کم درجے کا یورینیم روس کے بیس ہزار جوہری وارہیڈز سے نکالا گیا تھا، جو میگا ٹن سے میگا واٹ نامی پروگرام کے تحت امریکہ کے جوہری بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پچھلے پندرہ سال کے دوران، امریکہ کی بجلی کی مجموعی پیداوار کا پندرہ فیصد اسی پروگرام کے طفیل فراہم کیا گیا، اور امریکہ اور روس نے اس کامیاب تجربے کو مزید آگے بڑھانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اور وُہ جوہری عدم پھیلاؤ ، جوہری سیکیورٹی جوہری تحقیق اور ترقّی کے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھیں گے۔
نیو یارک میں ہندوستان کی نائب قونصل جنرل، دیویانی کھوبراگاڑے کی اپنی ملازمہ کو پوری تنخواہ نہ دینے کے الزام میں گرفتاری پر اُس ملک نے جس برہمی کا اظہار کیا ہے، اس پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ ہندوستان کا سنگین ردّعمل اس وجہ سے ہوا ہے کہ اُس کی نظر میں، اس کی سفارت کار کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے، کیونکہ اُسے اپنی بچی کو سکول چھوڑنے کے دوران گرفتار کیا گیا اور ہتھکڑی پہنائی گئی۔ اس لئے نہیں کہ اس نے اپنی ملازمہ کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، جس کے خلاف ایک ہندوستانی عدالت میں پیسہ اینٹھنے اور سازش کرنے کے الزام میں مقدّمہ چل رہا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کے مابین یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ’ویانا کنونشن‘ کے تحت اس سفارت کار کو استثنیٰ حاصل تھا۔
امریکہ کا موقّف یہ ہے کہ یہ استثنیٰ صرف سفارتی فرائض کی ادائیگی تک محدود ہے۔ لیکن ہندوستانی سفارت کاروں کا موقف ہے کہ سفارت کار کے گھریلو ملازم رکھنے کے فیصلے بھی استثنیٰ کے زُمرے میں آتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر زیباری، مسٹر کرزئی کے پرانے دوست ہیں اور وُہ اس لئے کابل کے دورے پر آئے تھے تاکہ افغان شیعوں کے لئے عراق کے مقدّس مقامات کی زیارت کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ دو سال پہلےکسی عراقی عہدہ دار کی طرف سے مسٹر کرزئی کے لئے اس قسم کے مشورے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اور اب مسٹر زیباری نے افغان صدر کو یاد دلایا ہے کہ دو سال قبل امریکی عراق سے نکل آنے پر بالکل تیار تھے اور وہ افغانستان سے بھی انخلاء کے لئے تیار ہونگے؛ اور عراق نے امریکی فوجوں کا ایک دستہ وہاں پیچھے چھوڑنے کے بارے میں سمجھوتے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا، تو تمام امریکی فوجیں وہاں سے نکل آئیں۔
اُس وقت قومی جذبے سے سرشار بُہت سے عراقیوں نے شادیانے منائے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی اپنی حکومت میں امن و امان برقرار رکھنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن، اس کے بعد ہوا یہ کہ عراق میں پھر سے تشدّد کی وباء پھوٹ پڑی اور صرف رواں سال کے دوران، ہزاروں انسانی جانیں فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ مسٹر زیباری نے افغان صدر کو بتایا کہ عراقی حکومت بغداد تک کو حفاظت فراہم نہیں کرسکی۔ باوجودیکہ، تیل سے اُس کی آمدنی اربوں ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور اُس کے پاس تربیت یافتہ سیکیورٹی فوجیں ہیں۔ اس کے برعکس، افغان حکومت، جو اپنے اخراجات کی محض 20 فیصد کی کفالت کرسکتی ہے، کس طرح امریکی امداد کے بغیر اس ملک پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی توقع کر سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق، مسٹر زیباری نے ایک ٹیلیفوں انٹرویو میں بتایا کہ عراق سےامریکی انخلاء کے دو سال بعد، بڑھتے ہوئے تشدّد کے بعد، وزیر اعظم نوری المالکی کو حمائت اور فوجی امداد کے لئے پھر امریکہ سے رجوع کرنا پڑا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے ماہ قبائیلی سرداروں کا لویا جرگہ امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنے کی اہمیت کا اظہار تھا، اور اس بات کا اشارہ بھی کہ افغان پبلک کا ایک طبقہ امریکی امداد جاری رکھنے کی حمائت کرتا ہے، اور اس نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ وُہ مسٹر کرزئی کی ہٹ دھرمی کے لئے افغان عوام کو اس کی سزا نہیں دینا چاہتے۔
اخبار کے بقول، کرزئی حکومت کے سینیئر وزیر، بشمول وزیر دفاع اور وزیر داخلہ، اس سے بالکل بے خبر تھے کہ وُہ اس سمجھوتے میں تاخیر چاہتے ہیں۔
پچھلے ہفتے، امریکہ اور روس نے تاریخ کے سب سے کامیاب جوہری عدم پھیلاؤ کے پروگرام کی تکمیل منائی۔ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق، ہفتے کے دوران، کم افزودگی والے یورینیم کی آخری کھیپ امریکی ریاست میری لینڈ کی بالٹی مور کی بندرگاہ پہنچا دی گئی، جو پانچ سو ٹن انتہائی افزودہ یورنیم سے نکالا گیا تھا۔ اس طرح، روس اور امریکہ کےدرمیان سنہ 1993 میں نہائت ہی افزودہ یورینیم کی خرید کا جو معاہدہ طے پایا تھا، وُہ پایہٴ تکمیل کو پہنچ گیا۔ یہ کم درجے کا یورینیم روس کے بیس ہزار جوہری وارہیڈز سے نکالا گیا تھا، جو میگا ٹن سے میگا واٹ نامی پروگرام کے تحت امریکہ کے جوہری بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پچھلے پندرہ سال کے دوران، امریکہ کی بجلی کی مجموعی پیداوار کا پندرہ فیصد اسی پروگرام کے طفیل فراہم کیا گیا، اور امریکہ اور روس نے اس کامیاب تجربے کو مزید آگے بڑھانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اور وُہ جوہری عدم پھیلاؤ ، جوہری سیکیورٹی جوہری تحقیق اور ترقّی کے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھیں گے۔
نیو یارک میں ہندوستان کی نائب قونصل جنرل، دیویانی کھوبراگاڑے کی اپنی ملازمہ کو پوری تنخواہ نہ دینے کے الزام میں گرفتاری پر اُس ملک نے جس برہمی کا اظہار کیا ہے، اس پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ ہندوستان کا سنگین ردّعمل اس وجہ سے ہوا ہے کہ اُس کی نظر میں، اس کی سفارت کار کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے، کیونکہ اُسے اپنی بچی کو سکول چھوڑنے کے دوران گرفتار کیا گیا اور ہتھکڑی پہنائی گئی۔ اس لئے نہیں کہ اس نے اپنی ملازمہ کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، جس کے خلاف ایک ہندوستانی عدالت میں پیسہ اینٹھنے اور سازش کرنے کے الزام میں مقدّمہ چل رہا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کے مابین یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ’ویانا کنونشن‘ کے تحت اس سفارت کار کو استثنیٰ حاصل تھا۔
امریکہ کا موقّف یہ ہے کہ یہ استثنیٰ صرف سفارتی فرائض کی ادائیگی تک محدود ہے۔ لیکن ہندوستانی سفارت کاروں کا موقف ہے کہ سفارت کار کے گھریلو ملازم رکھنے کے فیصلے بھی استثنیٰ کے زُمرے میں آتے ہیں۔