رسائی کے لنکس

ہتھیاروں کے حصول کے لیے کرزئی بھارت جائیں گے


فائل
فائل

کابل حکومت کا اصرار ہے کہ بھارت 2011ء میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے 'اسٹریٹجک اشتراکِ کار' کے معاہدے کے تحت افغانستان کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرے۔

صدر کرزئی رواں ہفتے بھارت کا دورہ کریں گے جس کے دوران میں وہ بھارتی حکام سے افغان فوج کے لیے ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں اور توپ خانے جیسے بھاری اسلحے کے حصول پر بات چیت کریں گے۔

صدر کرزئی نے بھارت کو درکار ہتھیاروں کی یہ فہرست رواں سال مئی میں پیش کی تھی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغان صدر کے حالیہ دورے کا مقصد اس فہرست پر مزید پیش رفت کو یقینی بنانا ہے۔

کابل حکومت کا اصرار ہے کہ بھارت 2011ء میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے 'اسٹریٹجک اشتراکِ کار' کے معاہدے کے تحت افغانستان کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرے۔

ہتھیاروں کی فراہمی کے اس مطالبے کی تائید میں صدر کرزئی کا موقف رہا ہے کہ بھارتی کی سکیورٹی مستحکم افغانستان سے مشروط ہے، لہذا نئی دہلی حکومت کو افغانستان کی سکیورٹی سے متعلق ضروریات پوری کرنا چاہئیں۔

خیال رہے کہ بھارت نے حالیہ برسوں میں افغانستان میں تعمیرِ نو کے مختلف منصوبوں پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جب کہ بھارتی فوج ہزاروں افغان فوجی اور پولیس اہلکاروں اور افسروں کو تربیت بھی دے رہی ہے۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے اور افغانستان کے پڑوسی ملک اور دیرینہ حریف پاکستان کی ممکنہ خفگی اور افغانستان میں سرگرم شدت پسندوں کی کاروائیوں کے پیشِ نظر افغان سکیورٹی اداروں کو ہتھیار فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

پاکستان افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ میں حالیہ برسوں میں ہونے والے اضافے پر کئی بار ناراضی کا اظہار کرچکا ہے اور افغانستان میں موجود بھارتی تنصیبات اور وہاں تعینات اہلکاروں کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی شکایت کرتا آیا ہے۔

اپنے اس دورے کے دوران میں صدر کرزئی جمعے کو نئی دہلی میں بھارت کے وزیرِاعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کریں گےجس میں ہتھیاروں کی مجوزہ فراہمی کے علاوہ باہمی دلچسپی کے دیگر معاملات بھی زیرِ بحث آئیں گے۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے صدر کرزئی نے پڑوسی ملک ایران کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے صدر حسن روحانی کے ساتھ باہمی تعاون کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔

صدر کرزئی نے اپنے دوروں کے لیے خطے کے ان دو اہم ممالک کا انتخاب ایسے وقت میں کیا ہے جب امریکہ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے باعث افغان صدر سے خائف ہے اور ان پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔

مجوزہ معاہدے کے تحت 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی لگ بھگ آٹھ ہزار امریکی فوجی وہاں ٹہر سکیں گےجو افغان فوج، پولیس اور فضائیہ کے ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں کو تربیت اور آپریشنل امور میں مشاورت فراہم کریں گے۔

افغانستان کے قبائلی رہنماؤں اور پارلیمان کی جانب سے منظوری دیے جانے کے باوجود صدر کرزئی مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ معاہدے کی منظوری کا فیصلہ آئندہ سال اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے نئے صدر پر چھوڑ دیا جائے۔
XS
SM
MD
LG