وال سٹریٹ جنرل
امریکی خلائی ادارےنےپیر کے روز ایک تاریخی معرکہ سرانجام دیا ، جب اُس کی خلائی گاڑی کامیابی کے ساتھ مٕرّیخ کی سر زمیں پر اُتری ۔
اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ، ڈھائی ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی اس گاڑی کو زمین سےمریخ تک کی مسافت طے کر نے میں پوُرے دو سال لگے ۔ اور اس کے مریخ کی سطح پر اترنے کے ساتھ سُرخ رنگ کا جو گردو غبار اُٹھا تھا ۔ وُہ بھی بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اُس نے وہاں سے مرّیخ کی تصاویر زمین کو بھیجنا شروع کیں۔ خلائی گاڑی سے بھیجی جانےوالی ان معلومات سے یہ انکشاف ہو نے کی توقّع ہے، کہ آیا اس سیارے کے حالات جانداروں کے لئے سازگار ہیں یا نہیں ۔
اس خلائی مشن کی نگرانی پے سے ڈینا کیلی فورنیاکی جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے ہو رہی ہے۔جہاں پیر کے روز سینکڑوں سائنس دان اور انجنئیر موجود تھے ۔ وُہ خلائی گاڑی کے مریخ پر کامیابی سے اترنے پر خوشی سے جُھوم اُٹھے۔ اور کئی افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
خودکار پائلٹ سے چلنے والی ایک ٹن وزنی یہ خلائی گاڑی کسی اور سیّارے پر اُترنے والی اب تک کی سب سے زیادہ پیچیدہ متحرک لیبارٹری ہے۔ مریخ پر اترنے سے پہلے اس کی جو ڈرامائی تصاویر زمین پر موصول ہوئیں۔ اُن میں وہ51 فُٹ چوڑے پیرا شُوٹ سے لٹکی ہوئی نیچے اُترتی نظر آرہی تھی۔ اور سب سے نمایاںلیکن سادہ سی تصویر اُس سائے کی تھی جو اس گاڑی کی مریخ کی سطح پر پڑ رہا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ آنے والےمہینوں میں سائنس دانوں کو امّید ہے کہ وہ مریخ کی سطح کے خول کے نیچے کیمسٹری کے ان شواہد کی تلاش کریں گے کہ آیا اُن میں جرثوموںکا زندہ رہنا ممکن ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے چند دنوں میں سائنس دانوں کو توقّع ہے کہ وہ اس گاڑی کے اینٹینا کو بروئے کار لائیں گے تاکہ، امریکی خلائی ادارے کے زمین پر قائم نیٹ ورک کووہاں سے برق رفتاری سے پیغامات کی ترسیل ممکن ہو ۔ اس گاڑی کے لیئے شاید ستمبر کے اوائل میں اپنی پہلی آزمائشی ڈرائیو پر روانہ ہونا ممکن ہو۔ اور اکتوبر تک شاید وہ مریخ کی مٹی کے اولیں نمونوں کا تجزیہ کرنے کے لائق ہو جائیں، اور پھر نومبر تک مریخ کی سطح کی کُھدائی بھی شروع ہو سکے ، تاکہ اُس کی معدنیات کے نمونے حاصل کیے جائیں۔
یوایس اے ٹوڈے
اخبار یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ ایسے میں جب امریکہ میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فی صد سے زیادہ ہے اور حکومت کا قرضہ160 کھرب سے تجاوز کر گیا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے ،کہ ٹیکس گُذاوں کا ڈھائی ارب ڈالر پیسہ کیوں اُس خلائی گاڑی پر لُٹایا گیا۔ جو پیر کو مریخ کی سطح پر اُتری ، کیا یہی پیسہ خود ملک کے اندرہی خرچ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مثلاً بے گھر لوگوں کومکان فراہم کرنے پر یا سڑکیں تعمیر کرنے پر۔
لیکن اخبار کہتا ہے ٴ کہ ایسا کہناسراسرکوتاہ اندیشی کی بات ہے ۔ آخر اس خلائی سیارچے کو 35 کروڈ میل کی مسافت کے بعد بہ عافیت مریخ پر پہنچا نا یقیناً کوئی آسان کام تو نہ تھا۔ چنانچہ مریخ جانے والا یہ سیارچہ امریکہ کی اُس بے چین خواہش کا مظہر ہے کہ نئے نئے چیلنجوں کا سامنا کیا جائے اور اب تک کے جواب طلب سوالوں کا جواب معلوم کیا جائے۔ او ر صدر کینیڈی کےقول میں تھوڑی سی تحریف کرکے کہاجاسکتا ہے کہ امریکہ ایسے کاموں کا بیڑا اس لئے اُٹھاتا ہےکیونکہ وُہ آسان نہیں ہوتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ مُشکل ہوتے ہیں، اور پیر کو امریکی خلائی سائنس دانوں نےجس اطمینان اور خُوشی کا برملا اظہار کیا ۔ وُہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا ۔ اس میں جس ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا ہے۔ وہ تمام کی تمام بالکُل نئی ہے ۔ جسے نئے انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی اقتصادی ترقّی کے لئے انجن کا کام کرتی ہے۔ا گر یہی مقصد ہے، اور ہونا بھی چاہئے ، تو پھر کیوں نہ ایسے پروگرام کی حمایت کی جائے، جس کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے یہ کارنامے سرانجام دینا ممکن ہو جاتاہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جو لوگ خلائی بجٹ میں کٹوتی کی وکالت کرتے ہیں، اُنہوں نے، ظاہر ہے ، تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ، اور نہ انہیں مستقبل کےاُن عظیم امکانات کا کوئی اندازہ ہے، جن کا پرتو مریخ پر اس نئے سیارچے سے آنے والےپیغامات میں نظر آتا ہے۔
امریکی خلائی ادارےنےپیر کے روز ایک تاریخی معرکہ سرانجام دیا ، جب اُس کی خلائی گاڑی کامیابی کے ساتھ مٕرّیخ کی سر زمیں پر اُتری ۔
اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ، ڈھائی ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی اس گاڑی کو زمین سےمریخ تک کی مسافت طے کر نے میں پوُرے دو سال لگے ۔ اور اس کے مریخ کی سطح پر اترنے کے ساتھ سُرخ رنگ کا جو گردو غبار اُٹھا تھا ۔ وُہ بھی بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اُس نے وہاں سے مرّیخ کی تصاویر زمین کو بھیجنا شروع کیں۔ خلائی گاڑی سے بھیجی جانےوالی ان معلومات سے یہ انکشاف ہو نے کی توقّع ہے، کہ آیا اس سیارے کے حالات جانداروں کے لئے سازگار ہیں یا نہیں ۔
اس خلائی مشن کی نگرانی پے سے ڈینا کیلی فورنیاکی جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے ہو رہی ہے۔جہاں پیر کے روز سینکڑوں سائنس دان اور انجنئیر موجود تھے ۔ وُہ خلائی گاڑی کے مریخ پر کامیابی سے اترنے پر خوشی سے جُھوم اُٹھے۔ اور کئی افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
خودکار پائلٹ سے چلنے والی ایک ٹن وزنی یہ خلائی گاڑی کسی اور سیّارے پر اُترنے والی اب تک کی سب سے زیادہ پیچیدہ متحرک لیبارٹری ہے۔ مریخ پر اترنے سے پہلے اس کی جو ڈرامائی تصاویر زمین پر موصول ہوئیں۔ اُن میں وہ51 فُٹ چوڑے پیرا شُوٹ سے لٹکی ہوئی نیچے اُترتی نظر آرہی تھی۔ اور سب سے نمایاںلیکن سادہ سی تصویر اُس سائے کی تھی جو اس گاڑی کی مریخ کی سطح پر پڑ رہا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ آنے والےمہینوں میں سائنس دانوں کو امّید ہے کہ وہ مریخ کی سطح کے خول کے نیچے کیمسٹری کے ان شواہد کی تلاش کریں گے کہ آیا اُن میں جرثوموںکا زندہ رہنا ممکن ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے چند دنوں میں سائنس دانوں کو توقّع ہے کہ وہ اس گاڑی کے اینٹینا کو بروئے کار لائیں گے تاکہ، امریکی خلائی ادارے کے زمین پر قائم نیٹ ورک کووہاں سے برق رفتاری سے پیغامات کی ترسیل ممکن ہو ۔ اس گاڑی کے لیئے شاید ستمبر کے اوائل میں اپنی پہلی آزمائشی ڈرائیو پر روانہ ہونا ممکن ہو۔ اور اکتوبر تک شاید وہ مریخ کی مٹی کے اولیں نمونوں کا تجزیہ کرنے کے لائق ہو جائیں، اور پھر نومبر تک مریخ کی سطح کی کُھدائی بھی شروع ہو سکے ، تاکہ اُس کی معدنیات کے نمونے حاصل کیے جائیں۔
یوایس اے ٹوڈے
اخبار یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ ایسے میں جب امریکہ میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فی صد سے زیادہ ہے اور حکومت کا قرضہ160 کھرب سے تجاوز کر گیا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے ،کہ ٹیکس گُذاوں کا ڈھائی ارب ڈالر پیسہ کیوں اُس خلائی گاڑی پر لُٹایا گیا۔ جو پیر کو مریخ کی سطح پر اُتری ، کیا یہی پیسہ خود ملک کے اندرہی خرچ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مثلاً بے گھر لوگوں کومکان فراہم کرنے پر یا سڑکیں تعمیر کرنے پر۔
لیکن اخبار کہتا ہے ٴ کہ ایسا کہناسراسرکوتاہ اندیشی کی بات ہے ۔ آخر اس خلائی سیارچے کو 35 کروڈ میل کی مسافت کے بعد بہ عافیت مریخ پر پہنچا نا یقیناً کوئی آسان کام تو نہ تھا۔ چنانچہ مریخ جانے والا یہ سیارچہ امریکہ کی اُس بے چین خواہش کا مظہر ہے کہ نئے نئے چیلنجوں کا سامنا کیا جائے اور اب تک کے جواب طلب سوالوں کا جواب معلوم کیا جائے۔ او ر صدر کینیڈی کےقول میں تھوڑی سی تحریف کرکے کہاجاسکتا ہے کہ امریکہ ایسے کاموں کا بیڑا اس لئے اُٹھاتا ہےکیونکہ وُہ آسان نہیں ہوتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ مُشکل ہوتے ہیں، اور پیر کو امریکی خلائی سائنس دانوں نےجس اطمینان اور خُوشی کا برملا اظہار کیا ۔ وُہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا ۔ اس میں جس ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا ہے۔ وہ تمام کی تمام بالکُل نئی ہے ۔ جسے نئے انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی اقتصادی ترقّی کے لئے انجن کا کام کرتی ہے۔ا گر یہی مقصد ہے، اور ہونا بھی چاہئے ، تو پھر کیوں نہ ایسے پروگرام کی حمایت کی جائے، جس کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے یہ کارنامے سرانجام دینا ممکن ہو جاتاہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جو لوگ خلائی بجٹ میں کٹوتی کی وکالت کرتے ہیں، اُنہوں نے، ظاہر ہے ، تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ، اور نہ انہیں مستقبل کےاُن عظیم امکانات کا کوئی اندازہ ہے، جن کا پرتو مریخ پر اس نئے سیارچے سے آنے والےپیغامات میں نظر آتا ہے۔