رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: اقلیت، شدت پسندوں کا نشانہ


ایک اخبار کے مطابق، ناقدین عیسائیوں کی ہلاکت کو نفرت کی بنیاد پر کئے جانے والے ایسے حملوں کے خلاف اقلیتوں کو تحفّظ فراہم کرنے میں حکومت کی ناکامی کی نظر سے دیکھتے ہیں

پاکستانی عیسائیوں کو عسکریت پسندوں نے کیوں اپنے حملے کا نشانہ بنایا؟ اِس عنوان سے انٹرنیٹ اخبار ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ پشاور شہر کے گرجا گھر پر دو خود کش بمباروں کم از کم اکیاسی افراد ہلاک کرکے ، حکومت پاکستان کے اس منصوبے کو پٹڑی سے قریب قریب اُتار دیا ہے ، جس کے تحت،۔ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا طے پایا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ جنداللہ اور جنُود الحِفسہ جنگجو تنظیموں نے کیا ہے
جن کا پاکستانی طالبان کے ساتھ اشتراک معلوم ہے۔ اور جنہوں نے حملے کے جواز میں کہا ہے کہ یہ شمالی قبائیلی علاقے پر امریکہ کے ڈرون حملوں کے جواب میں کیا گیا، جب کہ خود طالبان نے اس حملے کی مذمّت کی ہے۔


رپورٹ میں، ’پاکستان انسٹی چیوٹ آف پیس‘ کے ڈئرئکٹر امیر رانا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بم دہماکوں سے عسکریت پسندوں کا مقصد یہ لگتا ہے کہ وہ اخباری سُرخیوں کا موضوع بنے رہیں اور عالمی سیاسیات میں اُن کا متعلّقہ کردار بنا رہے۔

اِس سال، پاکستان میں جون میں جو بڑے حملے ہوئے، اور جن کا بڑا چرچا ہوا، اُن میں ایک تو کوئٹہ میڈیکل کالج کی طالبات سے بھری ہوئی بس پر، اور دوسرے گلگت میں غیر ملکی کوہ پیماؤو ں کا قتل۔

مسٹر رانا کہتے ہیں کہ یہ لوگ زیادہ متنازعہ اور ایسے اہداف کا انتخاب کر رہے ہیں جن پر دُنیا بھر کی توجّہ ہو۔ پاکستان کی عیسائی اقلیت کا شمار سب سے زیادہ غریب اور مفلوک الحال طبقوں میں ہوتا ہے۔ جو سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی اعتبار سے پسماندہ ہے اور جس کو اکثر و بیشتر تشدّد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن، یہ پہلا موقع ہے کہ جنگجو تنظیموں نے اتنے وسیع پیمانے پر عیسائی برادری کو نشانہ بنایا ہے۔ اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس کی وجہ سے حکومت کے اُن منصوبوں میں اڑچن پیدا ہوئی ہے، جن کا مقصد ملک کے شمالی علاقے میں امن بحال کرنا ہے۔


وزیر اعظم نواز شریف نے محض دو ہفتے قبل تمام سیاسی تنظیموں کو طالبان کے ساتھ تازہ مذاکرات کرنے پر آمادہ کیا تھا، جن کے بارے میں معلوم ہے کہ اُن کے ساتھ 30 جنگجو تنظیمیں وابستہ ہیں۔ لیکن، اقوام متحدہ سے خطاب کرنے کے لئے نیو یارک جاتے ہوئے لندن میں ایک پڑاؤ کے دوران، مسٹر نواز شریف نے کہا کہ ان تازہ حملوں کی وجہ سے پاکستانی طالبان کے ساتھ حکومت کے مجوزّہ مذاکرات کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ بعض لوگوں کو تشویش ہے کہ مذاکرات نہ ہوئے تو شمالی علاقے میں مزید تشدٓد ہوسکتا ہے اور اقلیتوں پر مزید حملے ہو سکتے ہیں۔

اخبار نے بعض مبصّرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان نے قیدیوں کی رہائی سمیت اپنی شرائط پیش کردی ہیں جن کی بنیاد پر وُہ مذاکرات کے لئے تیار ہونگے اور پیشرفت ہوسکتی ہے۔ لیکن، اسلام آباد میں تجزیہ کار سیرِل المائیڈا کی زیادہ محتاط رائے یہ ہے کہ اب تک مباحثوں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ بات کرنے پر تمام زور ریاست ہی کی طرف سے آیا ہے، جب کہ ان کی طرف سے آمادگی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

پاکستان کے عیسائیوں کا مسئلہ اُن کے تحفُظ کا متقاضی ہے۔

اس عنوان سے، ’نیو یارک ٹائمز‘ میں تجزیہ کار، ڈیکلن والش نے پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ’آل سینٹس چرچ‘ نامی اُس گرجا گھر کی تباہی کا حال بیان کیا ہے، جس میں اسلامی طرز کے مینار تھے اور جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان معاشرتی ہم آہنگی کی علامت تھا۔ اس کو تباہ کرنے کے لئے ایک بمبار نے باہر سے اور ایک نے اندر سے اپنے آپ کو بھک سے اُڑا دیا۔ مرنے والوں کی تعداد 85 سے تجاوز کر گئی ہے۔


اخبار کہتا ہے کہ ناقدین اس سانحے کو نفرت کی بنیاد پر کئے جانے والے ایسے حملوں کے خلاف اقلیتوں کو تحفّظ فراہم کرنے میں حکومت کی ناکامی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اور پچھلے ایک سال کے دوران نفرت کی بنیاد پر کئے گئے ایسے تباہ کُن حملوں میں خاص طور پرشیعہ برادری کے سینکڑوں افراد اور دوسری اقلیتوں کے لوگ ہلاک کئے جا چُکے ہیں۔

اِس کے بعد، حکومت کاطالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کرنے کا وُہ حالیہ فیصلہ بحث کا موضوع بن گیا ہے، جس کا قتل و غارت روکنے کی کوشش کے طور پر چرچا کیا جا رہا ہے۔

اور جیسا کہ ایک سینیئر تجزیہ کار نے ایک کالم میں کہا ہے، پاکستانی سیاست دان اس بنیادی سوال کے بارے میں ناکام ہو چکے ہیں کہ وہ کس قسم کے پاکستان کی قیادت کے دعوے دار ہیں۔ اور اُنہیں ہمدردی کے جذبے کےتحت یا خوف اور بُزدلی کی وجہ سے اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف ڈٹ جانے اور یہ کہنے کی ہمت نہیں پڑ رہی کہ بُہت ہو چکی اب ہم یہ ملک واپس اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔


اخبار کہتا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران، ان عسکریت پسندوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف اپنےحملے تیز تر کر دئے ہیں۔ لڑکیوں کے سکول بند کرنے کی مہم جاری رکھی ہے، فوج اور پولیس کو نشانہ بنایا ہے، اور مئی کے انتخابات سے قبل لبرل سیاسی پارٹیوں کے ارکان پر بھی ہاتھ صاف کیا۔

اب پشاور کے اس گرجا گھر پر یہ حملہ اس بات کی تازہ یاد دہانی ہے کہ طالبان کو پھوٹ کے شکار پاکستانی معاشرے میں مزید گہری پھوٹ ڈالنے میں کتنی خوشی ہوتی ہے۔

آخر میں، اخبار نے پاکستانی اخبار ’نیوز‘ کے ادارئے کا اس اقتباس کا یہ حوالہ نقل کیا ہے کہ پشاور کا حملہ ہر اُس شخص پر حملہ ہے جو جہالت کے ایجنڈے کا مخالف ہے اور اگر اس پر برابر خاموشی اختیار کی گئی تو مزید خون خرابہ ہوگا۔
XS
SM
MD
LG