واشنگٹن —
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہٴامریکہ کے بعد، شمالی وزیرستان میں سرکردہ دہشت گردوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنانے کا مسئلہ امریکی ابلاغ عامّہ میں اہم بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
ایک تو اس وجہ سے کہ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران نواز شریف نے بار بار یہ ڈرون حملے بند کرنے کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ، اُن کے بقول، اِن کی وجہ سے، بے گُناہ شہری بھی ہلاک ہوجاتے ہیں، اور پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکتے ہیں۔ دُوسرے، اسی دوران، انسانی حقوق کے معروف ادارے ’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ نے پاکستانی وزیر اعظم کے موٴقف کی تائید کرتے ہوئے نہ صرف ڈرون حملوں کو بند کرنے کی وکالت کی ہے، بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا معاملہ جنگی جرائم کے زُمرے میں آتا ہے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے اس کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے ایک خصوصی ادارئے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی ساخت اس قدر عمدہ ہے کہ عہدہ دار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف عسکریت پسند وں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ اور ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ کوئی بے گُناہ شہری اُن کی زد میں آئے۔ اخبار کہتا ہے کہ ایسے دعوؤں کو ہمیشہ قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ حکومت اِن کے ثبوت میں اعدادو شمار فراہم نہیں کرتی۔
اخبار کہتا ہے کہ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے پاکستان میں نو مُشتبہ ڈرون اور ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے چھ ایسے حملوں کا جائزہ لیا ہے اور دونوں اس مشترکہ نتیجے پر پہنچے ہیں کہ درجنوں شہری ان حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں، اور یہ کہ شائد امریکہ نے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ جنگی جرائم کا بھی ارتکاب کیا ہو۔
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق، سنہ 2004 سے اب تک پاکستان کے شمالی وزیرستان کے قبائیلی علاقے پر 374 ڈرون حملے ہوئے ہیں اور جن چار حملوں کی اس نے تحقیقات کی ہے صرف ان میں مرنے والے شہریوں کی تعداد 30 تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ مئی کے مہینے میں صدر اوبامہ نے ایک اہم قدم اُٹھاتے ہوئے، اعلان کیا تھا کہ وُہ ڈرون حملوں کی تعداد کم کردیں گے اور صرف اُن حملوں کی اجازت دیں گےجن کی وجہ سے شہریوں کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اُنہوں نے اس سلسلے میں جن رہنما اصولوں کا وعدہ کیا تھا وہ کبھی منظر عام پر نہیں آئے ہیں اور یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ آیا اُن پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔
اس کے باوجود، اخبار کی دانست میں، ڈرونوں کی امریکی اسلحہ خانے کے لئے اس وجہ سے بڑی اہمیت ہے کہ اُن کی مدد سے لاقانون علاقوں میں چُھپے ہوئے انتہاپسندوں تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے، جنہیں امریکی فوجوں کی جان جوکھوں میں ڈالے بغیر قابو کرنا ممکن نہیں۔۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ان کی وجہ سے، پاکستان اور یمن کے لوگوں میں امریکہ کے دشمن پیدا ہو رہے ہیں جن کا موقُف ہے کہ یہ ہتھیار جنگجؤوں کو مارنے کے ساتھ شہریوں کا بھی خون کرتے ہیں۔ اور، اخبار کی دانست میں، محض یہ ایک حقیقت حکومت کی جانب سے زیادہ شفافیت اور احتساب کی متقاضی ہے۔
اسی درمیان، معروف امریکی صحافی، جان وُڈ ورڈ نے، جن کی تحقیقاتی رپورٹنگ کا بُہت شُہرہ ہے، اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایسی خفیہ دستاویزں کو طشت از بام کیا ہے، جن کے مطابق یہ ڈرون حملے امریکہ اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ سمجھوتے کے تحت ہوتے آئے ہیں۔ اور کہا ہے کہ گو اعلیٰ پاکستانی عہدہ دار، ڈرون حملوں کی بار بار مذمّت کرتے آئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان عہدہ داروں نے خُفیہ طور پر سالہا سال تک ان حملوں کی حمائت کی ہے۔ اور ان حملوں اور ان سے ہلاک اور زخمی ہونے کے بارے میں اُنہیں باقاعدہ خُفیہ بریفنگ ملتی رہی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، ان کے اس دعوے کی بنیاد، سی آئی اے کی وہ نہائت خُفیہ دستاویزات اور وُہ پاکستانی سفارتی میمورنڈم ہیں جو ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے حاصل کئے ہیں، اور جن میں پاکستانی قبائیلی علاقے پر سنہ 2007 سے لے کہ سنہ 2011 تک کے ڈرون حملوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور جن میں، بغیر کسی شہری کو زک پہنچائے القاعدہ کے درجنوں مبیّنہ کارندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ڈرون حملوں کے لئے پاکستان کی رضامندی قومی سیکیورٹی کا ایک ایسا راز تھی، جس کا نہ واشنگٹن میں اور نہ اسلام آباد میں صحیح تحفُّظ کیا گیا، بلکہ ان حملوں کے ابتدائی دور میں ڈرون حملوں کے لئے پاکستانی ہوائی اڈّوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
اخبار کی اس رپورٹ کے مطابق، سی آئی اے کے ایک ترجمان سے ان دستاویزوں پر بات کرنے کے لئے کہا گیا تو وہ اس پر تیار نہیں ہوا۔ لیکن، اُس نے اُن کی صحت سے انکار نہیں کیا۔
ایک تو اس وجہ سے کہ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران نواز شریف نے بار بار یہ ڈرون حملے بند کرنے کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ، اُن کے بقول، اِن کی وجہ سے، بے گُناہ شہری بھی ہلاک ہوجاتے ہیں، اور پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکتے ہیں۔ دُوسرے، اسی دوران، انسانی حقوق کے معروف ادارے ’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ نے پاکستانی وزیر اعظم کے موٴقف کی تائید کرتے ہوئے نہ صرف ڈرون حملوں کو بند کرنے کی وکالت کی ہے، بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا معاملہ جنگی جرائم کے زُمرے میں آتا ہے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے اس کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے ایک خصوصی ادارئے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی ساخت اس قدر عمدہ ہے کہ عہدہ دار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف عسکریت پسند وں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ اور ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ کوئی بے گُناہ شہری اُن کی زد میں آئے۔ اخبار کہتا ہے کہ ایسے دعوؤں کو ہمیشہ قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ حکومت اِن کے ثبوت میں اعدادو شمار فراہم نہیں کرتی۔
اخبار کہتا ہے کہ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے پاکستان میں نو مُشتبہ ڈرون اور ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے چھ ایسے حملوں کا جائزہ لیا ہے اور دونوں اس مشترکہ نتیجے پر پہنچے ہیں کہ درجنوں شہری ان حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں، اور یہ کہ شائد امریکہ نے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ جنگی جرائم کا بھی ارتکاب کیا ہو۔
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق، سنہ 2004 سے اب تک پاکستان کے شمالی وزیرستان کے قبائیلی علاقے پر 374 ڈرون حملے ہوئے ہیں اور جن چار حملوں کی اس نے تحقیقات کی ہے صرف ان میں مرنے والے شہریوں کی تعداد 30 تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ مئی کے مہینے میں صدر اوبامہ نے ایک اہم قدم اُٹھاتے ہوئے، اعلان کیا تھا کہ وُہ ڈرون حملوں کی تعداد کم کردیں گے اور صرف اُن حملوں کی اجازت دیں گےجن کی وجہ سے شہریوں کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اُنہوں نے اس سلسلے میں جن رہنما اصولوں کا وعدہ کیا تھا وہ کبھی منظر عام پر نہیں آئے ہیں اور یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ آیا اُن پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔
اس کے باوجود، اخبار کی دانست میں، ڈرونوں کی امریکی اسلحہ خانے کے لئے اس وجہ سے بڑی اہمیت ہے کہ اُن کی مدد سے لاقانون علاقوں میں چُھپے ہوئے انتہاپسندوں تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے، جنہیں امریکی فوجوں کی جان جوکھوں میں ڈالے بغیر قابو کرنا ممکن نہیں۔۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ان کی وجہ سے، پاکستان اور یمن کے لوگوں میں امریکہ کے دشمن پیدا ہو رہے ہیں جن کا موقُف ہے کہ یہ ہتھیار جنگجؤوں کو مارنے کے ساتھ شہریوں کا بھی خون کرتے ہیں۔ اور، اخبار کی دانست میں، محض یہ ایک حقیقت حکومت کی جانب سے زیادہ شفافیت اور احتساب کی متقاضی ہے۔
اسی درمیان، معروف امریکی صحافی، جان وُڈ ورڈ نے، جن کی تحقیقاتی رپورٹنگ کا بُہت شُہرہ ہے، اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایسی خفیہ دستاویزں کو طشت از بام کیا ہے، جن کے مطابق یہ ڈرون حملے امریکہ اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ سمجھوتے کے تحت ہوتے آئے ہیں۔ اور کہا ہے کہ گو اعلیٰ پاکستانی عہدہ دار، ڈرون حملوں کی بار بار مذمّت کرتے آئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان عہدہ داروں نے خُفیہ طور پر سالہا سال تک ان حملوں کی حمائت کی ہے۔ اور ان حملوں اور ان سے ہلاک اور زخمی ہونے کے بارے میں اُنہیں باقاعدہ خُفیہ بریفنگ ملتی رہی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، ان کے اس دعوے کی بنیاد، سی آئی اے کی وہ نہائت خُفیہ دستاویزات اور وُہ پاکستانی سفارتی میمورنڈم ہیں جو ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے حاصل کئے ہیں، اور جن میں پاکستانی قبائیلی علاقے پر سنہ 2007 سے لے کہ سنہ 2011 تک کے ڈرون حملوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور جن میں، بغیر کسی شہری کو زک پہنچائے القاعدہ کے درجنوں مبیّنہ کارندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ڈرون حملوں کے لئے پاکستان کی رضامندی قومی سیکیورٹی کا ایک ایسا راز تھی، جس کا نہ واشنگٹن میں اور نہ اسلام آباد میں صحیح تحفُّظ کیا گیا، بلکہ ان حملوں کے ابتدائی دور میں ڈرون حملوں کے لئے پاکستانی ہوائی اڈّوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
اخبار کی اس رپورٹ کے مطابق، سی آئی اے کے ایک ترجمان سے ان دستاویزوں پر بات کرنے کے لئے کہا گیا تو وہ اس پر تیار نہیں ہوا۔ لیکن، اُس نے اُن کی صحت سے انکار نہیں کیا۔