شام میں امریکہ کو آگے کیا قدم اُٹھانا چاہئے، اس پر صدر اوبامہ کی منگل کی نشری تقریر پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ ایک تجزئے میں کہتا ہے کہ شام پر حملہ کرنے کے سلسلے میں صدر کی مہم نے ایک غیر متوقع پلٹا کھایا جب اُن کی حکومت نے غیر ارادی طور پر شامی حکومت کو اس حملے سے بچنے کا ایک موقع فراہم کیا۔ امریکی کانگریس میں نئی سوچیں جنم لینے لگیں، اور بین الاقوامی سطح پر جو لوگ اس حملے کی مخالفت کرتے آئے ہیں اُن میں نیا جوش و خروش دیکھنے میں آرہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جب وزیر خارجہ جان کیری نے یہ اشارہ دیا کہ صدر بشارالاسد اس حملے سے بچ سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ فوری طور پر اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی برادری کے حوالے کردیں، روس نے اس کی حمائت کا اعلان کردیا اور فوری طور پر دمشق کو بھی اس پر راضی کر لیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوا م کی بڑھتی ہوئی تعداد شام پر چڑھائی کرنے کے خلاف ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ اور ’این بی سی‘ کے رائے عامّہ کے تازہ جائزے کے مطابق 58 فی صد امریکی کانگریس سے کہہ رہے ہیں کہ وہ شام پر حملہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دے۔ اور روس کی اس نئی تجویز سے ایسے حملے کی حمائت اور بھی کم ہونے کا احتمال ہے۔ اور وہائٹ ہاؤس کے عہدہ دار محسوس کر رہے ہیں کہ سینیٹ کا فیصلہ بھی، جس پر ڈیموکریٹوں کا غلبہ ہے، مشکُوک ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس تجویز کی اقوام متحدہ میں بھی پذیرائی ہو رہی ہے۔ سکرٹری جنرل بن کی مُون ویسے ہی اس فوجی مداخلت کے خلاف ہیں اور اُنہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کی نگرانی کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ادھر فرانس اور برطانیہ بھی، جو فوجی مداخلت کی حمائت کرتے آئے ہیں، اب اس تجویز کے حق میں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ مسٹر اسد کے لئے فوجی حملے سے بچنے کے لئے یہی ایک راستہ ہے۔
خود صدر اوبامہ نے پبلک ٹیلی وژن پر یہ واضح کر دیا کہ اس پورے مرحلے کے دوران ان کا منشا یہی رہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا دوبارہ اس طرح شرمناک استعمال نہ ہو۔ اور اس مقصد کا حصول سفارتی ذرائع سے ممکن ہو تو وہ اس کو انتہائی ترجیح دینے کے لئے تیار ہیں۔
چنانچہ، انہوں نے وزیر خارجہ جان کیری کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ روسیوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اس پر عمل کرائیں اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اگر ایک ایسا فارمولا وضع ہو جائے جس سے بین الاقوامی برادری کو ایسا قابل عمل اور قابل تصدیق طریق کار میسّر آجائے، تو وُہ اس کی حمائت کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی کانگریس نے اس نئی تجویز کا خیر مقدم کیا گیا ہے، اور وہاں پر ہونے والے مباحثے پر اس کا ڈرامائی اثر ہوگا۔
اخبار نے ایک ڈیموکریٹک رُکن کانگریس جِم مورین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس روسی تجویز سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس سے کوئی حل نکل سکتا ہے اور ہمیں اس پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
اخبار ’ڈیٹرائٹ نیوز‘ صدر کی منگل کی نشری تقریر کے بارے میں کہتا ہے کہ اس سے چند ہی گھنٹے قبل روس کی طرف سے شام کے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی تحویل میں دینے کی تجویز منظر عام پر آنے سے اس تقریر کا لہجہ بدل گیا اور مسٹر اوبامہ نے اس تجویز کو ایک امکانی پیش رفت سے تعبیر کیا۔ لیکن، اس کے قابل عمل ہونے پر شک و شُبہے کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ یہ تجویز صرف اُسی حد تک میں کامیاب ہوگی جس حد تک امریکی فوجی کاراوائی کی دھمکی کا اعتبار قائم رہے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت شام میں طاقت کا استعمال کرنے کے خلاف ہے۔
اور صدر نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ انہیں معلوم ہے کہ عراق اور افغانستان میں ہولناک اموات کے بعد کوئی بھی امریکی فوجی کاروائی عوام میں مقبول نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی محدود نوعیت کی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ، انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کی سب سے زیادہ ترجیح یہی ہے کہ مسائل کے حل پُرامن طریقوں سے ہوں۔
نائن الیون کی بارہویں برسی پر ’بوسٹن گلوب‘ اخبار کہتا ہے کہ قوم اب بھی القاعدہ وسیع پیمانے کی تباہی لانے والے ہتھیاروں اور امریکہ کی طرف سے بے عملی کے تکلیف دہ سوالوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔ اور اس بحث کا مرکز صدر براک اوبامہ ہیں جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ امریکہ کو اُس مستقل حالت جنگ سے نکالا جائے جس میں یہ ملک نائن الیون کے بعد کے برسوں میں پھنسا ہوا ہے۔
اور جیسا کہ شام پر مسڑ اوبامہ نے منگل کو اپنی نشری تقریر میں کہا امریکہ دنیا کا تھانیدار نہیں ہے۔ دنیا میں ہولناک واقعات ہوتے رہتے ہیں، اور ایسے ہر واقعے کا مداوا امریکہ کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن، ایک معمولی سی کوشش اور خطرہ مول لے کر ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ کو زہریلی گیس سے بچوں کی ہلاکت کو روکیں۔
اخبار کہتا ہے کہ بعض لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اگر امریکہ نےشام پر حملہ کر دیا، تو امریکی فوج دوبارہ ایک طویل اور لاحاصل جنگ میں اُلجھ جائے گی، جیسا کہ انہوں نے دیکھا کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے دوران ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو باربار میدان جنگ بھیج دیا گیا۔ کچھ اور لوگ شام کو مشق وسطیٰ کے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں، اور انہیں اندیشہ ہے کہ اگر امریکہ اس وقت اپنے موقّف پر نہیں ڈٹا رہا تو اس خطے میں مستقبل میں پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے میں امریکہ کی پوزیشن کمزور ہوگی۔
اخبار کہتا ہے کہ جب وزیر خارجہ جان کیری نے یہ اشارہ دیا کہ صدر بشارالاسد اس حملے سے بچ سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ فوری طور پر اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی برادری کے حوالے کردیں، روس نے اس کی حمائت کا اعلان کردیا اور فوری طور پر دمشق کو بھی اس پر راضی کر لیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوا م کی بڑھتی ہوئی تعداد شام پر چڑھائی کرنے کے خلاف ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ اور ’این بی سی‘ کے رائے عامّہ کے تازہ جائزے کے مطابق 58 فی صد امریکی کانگریس سے کہہ رہے ہیں کہ وہ شام پر حملہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دے۔ اور روس کی اس نئی تجویز سے ایسے حملے کی حمائت اور بھی کم ہونے کا احتمال ہے۔ اور وہائٹ ہاؤس کے عہدہ دار محسوس کر رہے ہیں کہ سینیٹ کا فیصلہ بھی، جس پر ڈیموکریٹوں کا غلبہ ہے، مشکُوک ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس تجویز کی اقوام متحدہ میں بھی پذیرائی ہو رہی ہے۔ سکرٹری جنرل بن کی مُون ویسے ہی اس فوجی مداخلت کے خلاف ہیں اور اُنہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کی نگرانی کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ادھر فرانس اور برطانیہ بھی، جو فوجی مداخلت کی حمائت کرتے آئے ہیں، اب اس تجویز کے حق میں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ مسٹر اسد کے لئے فوجی حملے سے بچنے کے لئے یہی ایک راستہ ہے۔
خود صدر اوبامہ نے پبلک ٹیلی وژن پر یہ واضح کر دیا کہ اس پورے مرحلے کے دوران ان کا منشا یہی رہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا دوبارہ اس طرح شرمناک استعمال نہ ہو۔ اور اس مقصد کا حصول سفارتی ذرائع سے ممکن ہو تو وہ اس کو انتہائی ترجیح دینے کے لئے تیار ہیں۔
چنانچہ، انہوں نے وزیر خارجہ جان کیری کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ روسیوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اس پر عمل کرائیں اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اگر ایک ایسا فارمولا وضع ہو جائے جس سے بین الاقوامی برادری کو ایسا قابل عمل اور قابل تصدیق طریق کار میسّر آجائے، تو وُہ اس کی حمائت کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی کانگریس نے اس نئی تجویز کا خیر مقدم کیا گیا ہے، اور وہاں پر ہونے والے مباحثے پر اس کا ڈرامائی اثر ہوگا۔
اخبار نے ایک ڈیموکریٹک رُکن کانگریس جِم مورین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس روسی تجویز سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس سے کوئی حل نکل سکتا ہے اور ہمیں اس پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
اخبار ’ڈیٹرائٹ نیوز‘ صدر کی منگل کی نشری تقریر کے بارے میں کہتا ہے کہ اس سے چند ہی گھنٹے قبل روس کی طرف سے شام کے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی تحویل میں دینے کی تجویز منظر عام پر آنے سے اس تقریر کا لہجہ بدل گیا اور مسٹر اوبامہ نے اس تجویز کو ایک امکانی پیش رفت سے تعبیر کیا۔ لیکن، اس کے قابل عمل ہونے پر شک و شُبہے کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ یہ تجویز صرف اُسی حد تک میں کامیاب ہوگی جس حد تک امریکی فوجی کاراوائی کی دھمکی کا اعتبار قائم رہے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت شام میں طاقت کا استعمال کرنے کے خلاف ہے۔
اور صدر نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ انہیں معلوم ہے کہ عراق اور افغانستان میں ہولناک اموات کے بعد کوئی بھی امریکی فوجی کاروائی عوام میں مقبول نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی محدود نوعیت کی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ، انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کی سب سے زیادہ ترجیح یہی ہے کہ مسائل کے حل پُرامن طریقوں سے ہوں۔
نائن الیون کی بارہویں برسی پر ’بوسٹن گلوب‘ اخبار کہتا ہے کہ قوم اب بھی القاعدہ وسیع پیمانے کی تباہی لانے والے ہتھیاروں اور امریکہ کی طرف سے بے عملی کے تکلیف دہ سوالوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔ اور اس بحث کا مرکز صدر براک اوبامہ ہیں جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ امریکہ کو اُس مستقل حالت جنگ سے نکالا جائے جس میں یہ ملک نائن الیون کے بعد کے برسوں میں پھنسا ہوا ہے۔
اور جیسا کہ شام پر مسڑ اوبامہ نے منگل کو اپنی نشری تقریر میں کہا امریکہ دنیا کا تھانیدار نہیں ہے۔ دنیا میں ہولناک واقعات ہوتے رہتے ہیں، اور ایسے ہر واقعے کا مداوا امریکہ کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن، ایک معمولی سی کوشش اور خطرہ مول لے کر ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ کو زہریلی گیس سے بچوں کی ہلاکت کو روکیں۔
اخبار کہتا ہے کہ بعض لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اگر امریکہ نےشام پر حملہ کر دیا، تو امریکی فوج دوبارہ ایک طویل اور لاحاصل جنگ میں اُلجھ جائے گی، جیسا کہ انہوں نے دیکھا کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے دوران ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو باربار میدان جنگ بھیج دیا گیا۔ کچھ اور لوگ شام کو مشق وسطیٰ کے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں، اور انہیں اندیشہ ہے کہ اگر امریکہ اس وقت اپنے موقّف پر نہیں ڈٹا رہا تو اس خطے میں مستقبل میں پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے میں امریکہ کی پوزیشن کمزور ہوگی۔