رسائی کے لنکس

شام پر صدر اوباما کا قوم سے خطاب: مکمل اردو متن


قوم سے اپنے خطاب میں، صدر اوباما نے شام کے بارے میں اپنی انتظامیہ کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سفارت کاری کو موقع دیا جائے گا، جب کہ ساتھ ہی، بشار الاسد کی حکومت پر دباؤ برقرار رکھا جائے گا

امریکی صدر براک اوباما نے 10 ستمبر کو شام کے تنازعے پر قوم سے خطاب کیا۔ اس تقریر کا اردو متن پیش خدمت ہے:

میرے ہم وطن امریکیو،آج رات میں آپ کے ساتھ شام سے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں۔یہ معاملہ کیوں اہم ہے اور یہاں سے ہمیں اب کہاں جانا ہے۔
پچھلے دو برسوں کے دوران جو چیز بشار الاسد کی استبدادی انتظامیہ کے خلاف متعدد احتجاجی مظاہروں کی صورت میں شروع ہوئی تھی، وہ ایک ہولناک خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔100,000سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے جبکہ لاکھوں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکہ اس زمانے میں فلاحی امداد فراہم کرنے، اعتدال پسند حزب اختلاف کی مدد کرنے اور کسی سیاسی تصفیے کو تشکیل دینے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا۔ لیکن میں نے فوجی کارروائی کے مطالبوں کی مزاحمت کی، اس لیے کہ ہم کسی دوسرے کی خانہ جنگی کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل نہیں کرسکتے، خاص طور سے عراق اور افغانستان میں ایک عشرے تک جنگ کے بعد۔
یہ صورتِ حال 21 اگست کو اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی، جب اسد حکومت نے زہریلی گیس کے ذریعے سینکڑوں بچّوں سمیت، ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ زہریلی گیس سے ہلاک ہونے والے مردوں، عورتوں اور بچّوں کی قطاروں میں پڑی ہوئی لاشیں۔دوسروں کے منہ سے نکلتا ہوا جھاگ، گھٹتا ہوا دم۔ کوئی باپ اپنے مردہ بچوں سے لپٹا ہوا،ان سے التجائیں کرتا ہوا کہ اُٹھ کھڑے ہو او ر چلو پھرو۔اُس خوفناک رات دنیا نے کرب انگیز تفصیلات کے ساتھ کیمیاوی ہتھیاروں کی ہولناک اصلیت کو دیکھا اور یہ کہ بنی نوع انسان کی غالب اکثریت نے ان ہتھیاروں کو ممنوع، ایک خلافِ انسانیت جرم اور قوانین جنگ کی خلاف ورزی کیوں قرار دیا۔
ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں امریکی فوجی اُن ہزاروں دوسرے فوجیوں کے ساتھ شامل تھے جو یورپ کی خندقوں میں مہلک گیس سے ہلاک ہوئے۔دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے لاکھوں یہودیوں کےہولناک قتل عام کے لیے گیس استعمال کی۔ چونکہ یہ ہتھیار فوجی اور شیر خوار بچّے میں تمیز کیے بغیر وسیع پیمانے پر انسانوں کو ہلاک کرسکتے ہیں، اس لیے مہذب دنیا ان پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک صدی تک کام کرتی رہی۔اور پھر1997ءمیں امریکہ کی سینٹ نے بھاری اکثریت کے ساتھ اس بین الاقوامی معاہدے کی منظوری دے دی جس میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی ممانعت کی گئی ہے۔اب اس میں 189 حکومتیں شامل ہیں جو دنیا کے 98فیصد انسانوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔
21 اگست کو ہماری مشترکہ انسانیت کے احساس کے ساتھ ساتھ ان بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی۔کوئی اس بات سے اختلاف نہیں کرتا کہ شام میں کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ دنیا نے ہزاروں ویڈیوز اور سیل فون سے اتاری ہوئی تصویروں کو دیکھا ہے اور سوشل میڈیا پر اس حملے کی تفصیلات کا مشاہدہ کیا ہے اور فلاحی امداد کی تنظیموں نے زہریلی گیس کی علامتوں کے حامل لوگوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے حالات سے آگاہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ اسد انتظامیہ اس حملے کی ذمّے دار تھی۔ہم جانتے ہیں کہ 21اگست سے کچھ دن پہلے اسد کے کیمیائی ہتھیاروں سے وابستہ عملے نے ایک ایسےمقام کے قریب کسی حملے کی تیاری کی تھی جہاں وہ سیرین گیس کو مِکس کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے فوجیوں میں گیس ماسک تقسیم کیے تھے۔پھر انہوں نے انتظامیہ کے کنٹرول کے ایک علاقے سے اُن گیارہ محلوں پر راکٹ فائر کیے جہاں انتظامیہ حزبِ اختلاف کی فوجوں کا صفایا کرنے کی کوششیں کرتی رہی تھی۔اُن راکٹوں کے گرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد گیس پھیل گئی اور ہسپتال قریب المرگ لوگوں اور زخمیوں سے بھر گئے۔ہمیں معلوم ہے کہ اسد کے فوجی حلقے کی اہم شخصیتوں نے اس حملے کے نتائج کا جائزہ لیا تھا اور انتظامیہ نے حملے کے بعدکے دنوں میں انہی محلوں پر اپنی گولہ باری میں اضافہ کردیا تھا۔ہم نے اسی جگہ کے لوگوں کے بالوں اور خون کے نمونوں کا بھی مطالعہ کیا اور ٹیسٹ میں انہیں سیرین سے آلودہ پایا۔
ڈکٹیٹر ظلم و ستم ڈھاتے ہوئے ایک ایسی دنیا کا سہارا لیتے ہیں جو اس وقت تک چشم پوشی کرتی رہتی ہےجب تک ہولناک تصویروں کے نقش یاد داشت سے مِٹ نہیں جاتے۔لیکن ایسا ہوتا ہے، حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔سوال اب یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری اس بارے میں کیا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے ساتھ، اُن بچوّں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ہماری سلامتی کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔
چلئے میں وضاحت کرتا چلوں، اگر ہم عملی کارروائی کرنے میں ناکام رہے تو اسد انتظامیہ کے لیے ایسی کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ وہ کیمیاوی ہتھیاروں کو استعمال کرنا بند کردے۔ اس طرح جب ان ہتھیاروں کے خلاف پابندی ختم ہونے لگے گی تودوسرے ظالم حکمرانوں کے لیے بھی زہریلی گیس حاصل کرنے اور اسے استعمال کرنے کے بارے میں دو مرتبہ سوچنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔وقت گزرنے پر ہمارے فوجیوں کو ایک بار پھر میدان جنگ میں کیمیاوی جنگ کے امکان کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور اس طرح دہشت گرد تنظیموں کے لیے ان ہتھیاروں کو حاصل کرلینا اور انہیں عام شہریوں کے خلاف استعمال کرنا زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔
اگر جنگ شام کی سرحدوں کے باہر پھیلتی ہے تو یہ ہتھیار، ترکی، اُردن اور اسرائیل جیسے اتحادیوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اور کیمیاوی ہتھیاروں کے خلاف کوئی سخت موقف اختیار کرنے میں ناکامی سے وسیع تباہی لانے والے دوسرے ہتھیاروں کے خلاف پابندیاں کمزور پڑ جائیں گی اور اسد کے اتحادی ایران کی حوصلہ افزائی ہوگی ، جسے لازمی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کوئی ایٹمی ہتھیار بناتے ہوئے بین الاقوامی قانون سے رو گردانی کرے یا پھر کوئی زیادہ پُر امن راستہ اختیار کرے۔
یہ کوئی ایسی دنیا نہیں ہے جسے ہم قبول کریں۔یہ ہے وہ چیز جو داؤ پر لگی ہوئی ہے، اور یہی وجہ ہے جو میں احتیاط کے ساتھ غوروفکر کے بعد اس نتیحے پر پہنچا ہوں کہ اسد انتظامیہ کی جانب سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں مخصوص نشانوں پر فوجی حملے کی صورت میں کوئی کارروائی، ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔ اس حملے کا مقصد اسدکو کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے سے باز رکھنا،اس کی انتظامیہ کی ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچانا اور دنیا پر یہ واضح کردینا ہے کہ ہم ان کے استعمال کو برداشت نہیں کریں گے۔
کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔ لیکن میں دنیا کی قدیم ترین آئینی جمہوریت کا صدر بھی ہوں ۔ لہٰذا اگرچہ میرے پاس فوجی حملوں کا حکم دینے کا اختیار موجود ہے، پھر بھی میں نے یہ بات مناسب سمجھی کہ چونکہ ہماری سلامتی کو کوئی براہِ راست یا فوری خطرہ موجود نہیں ہے، اس لیے اس بحث کو کانگریس کے سامنے لے جایا جائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جمہوریت اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جب صدر کانگریس کی حمایت سے کارروائی کرتے ہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں تو امریکہ بیرونِ ملک زیادہ مؤثر کارروائی کر سکتا ہے ۔
یہ بات ایک ایسے عشرے کے بعد خاص طور سےدرست ہے جس میں صدر کے ہاتھوں میں جنگ کرنے کے زیادہ سے زیادہ اختیارات دے دئیے گئے، ہمارے فوجیوں کے کندھوں پر روز بروز زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا، اور اس کے ساتھ ہی ان اہم فیصلوں میں کہ طاقت کب استعمال کی جائے، عوام کے نمائندوں کو پس ِ پشت ڈال دیا گیا۔
میں یہ بات جانتا ہوں کہ عراق اور افغانستان کی ہولناک تباہی کے بعد فوجی کارروائی کی کوئی بھی تجویز، وہ کتنی ہی محدود کیوں نہ ہو، مقبول نہیں ہوگی۔ آخر میں نے ساڑھے چار سال جنگوں کے خاتمے پر صرف کیے ہیں، انہیں شروع کرنے پر نہیں ۔ عراق سے ہماری فوجیں نکل چکی ہیں ۔ افغانستان سے ہمارے فوجی گھر واپس آ رہے ہیں ۔ اور میں جانتا ہوں کہ امریکی، خاص طور پر میں ۔۔ہم سب کو واشنگٹن میں دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ ہم یہاں اپنے ملک کی تعمیر پر اپنی تمامتر توجہ مرکوز کر سکیں: ہم لوگوں کو روزگار واپس دلا سکیں، ہم بچوں کو تعلیم دے سکیں، اپنے متوسط طبقے کی افزائش کر سکیں۔
لہٰذا اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ آپ مشکل سوالات پوچھ رہے ہیں ۔ پس میں چاہوں گا کہ بعض اہم ترین سوالات کے جواب دوں جو میں نے ارکانِ کانگریس سے سنے ہیں، اور ان خطوط میں پڑھے ہیں جو آپ نے مجھے بھیجے ہیں ۔
اول ، آپ میں سے بہت سوں نے پوچھا ہے کہ کیا اس کارروائی سے ہم ایک اور جنگ میں الجھ کر نہیں رہ جائیں گے ؟ ایک شخص نے مجھے لکھا کہ ہم "عراق کی جنگ کے اثرات سے اب بھی پوری طرح نہیں نکل پائے ہیں۔" ایک سابق فوجی نے زیادہ صاف زبان استعمال کی: "یہ ملک جنگ سے عاجز آ چکا ہے۔"
میرا جواب بڑا سادہ ہے: میں شام کی سرزمین پر کسی امریکی فوجی کو قدم نہیں رکھنے دوں گا۔ میں عراق اور افغانستان کی طرح کوئی ایسی کارروائی نہیں کروں گا جس کا اختتام واضح نہ ہو۔ میں لیبیا یا کوسووو کی طرح کوئی طویل فضائی مہم نہیں چلاؤں گا ۔ یہ حملہ بعض مخصوص اہداف پر ہو گا تا کہ ایک واضح مقصد حاصل کیا جا سکے: کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے باز رکھنا اور اسد کی جنگی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانا۔
بعض دوسرے لوگوں نے پوچھا ہے کہ اگر ہم اسد کو ختم نہیں کرتے تو کیا پھر بھی اس کارروائی کا کوئی فائدہ ہے۔ جیسا کہ امریکی کانگریس کے بعض ارکان نے کہا ہے، کہ اگر ہم شام میں ایسا حملہ کر رہے ہیں جس کا مقصد محض "کچوکا " لگانا یا چھیڑ خانی کرنا ہے، تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: امریکی فوج چھیڑ خانیاں نہیں کرتی۔ ایک محدود حملے سے ہی اسد کو ایسا پیغام مل جائے گا جو کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا ۔ میرے خیال میں ہمیں ایک اور ڈکٹیٹر کو طاقت سے نہیں ہٹانا چاہیئے ۔ ہم نے عراق میں یہ سبق سیکھا ہے کہ ایسا کرنے سے ہم ان تمام حالات کے لیے ذمے دار ہو جاتے ہیں جو بعد میں پیش آتے ہیں ۔لیکن اگر مخصوص اہداف پر حملہ کیا جائے، تو اسد یا کوئی دوسرا ڈکٹیٹر کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے سے پہلے دو بار سوچے گا۔
جو دوسرے سوال پیدا ہوتے ہیں ان کا تعلق جوابی کارروائی کے خطرات سے ہے ۔ ہم کسی خطرے سے چشم پوشی نہیں کرتے لیکن اسد حکومت کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہماری فوج کیلئے کوئی حقیقی خطرہ بن سکے ۔کوئی اور جوابی کارروائی ،جو وہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، وہ ان خطرات کی طرح ہی ہے جن کا ہمیں ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نہ تو اسد اور نہ اس کے کوئی اتحادی جنگ کو بڑھانا چاہیں گے جس کا نتیجہ اسد کے خاتمے کی صورت میں نکلے گا ۔اور ہمارا اتحادی، اسرائیل، اپنی زبردست طاقت سے اور امریکہ کی غیر متزلزل حمایت سے اپنا دفاع کر سکتا ہے۔
آپ میں سے بہت سوں نے ایک مفصل سوال پوچھا ہے:آخر ہم ایک ایسی جگہ الجھیں ہی کیوں جو اتنی پیچیدہ ہے اور جہاں، جیسا کہ ایک شخص نے مجھے لکھا ہے کہ "جو لوگ اسد کے بعد آئیں گے وہ انسانی حقوق کے دشمن ہو سکتے ہیں؟"
یہ صحیح ہے کہ اسد کے بعض مخالفین انتہا پسند ہیں ۔ لیکن اگر شام میں افرا تفری میں اضافہ ہوا تو اس سے القاعدہ اور مضبوط ہو گی اگر وہاں لوگوں نے یہ دیکھا کہ بے گناہ شہریوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کر دیا گیا اور دنیا نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ شام کے لوگوں کی اکثریت اور شام کی حزبِ اختلاف، جس کے ساتھ مل کر ہم کام کرتے ہیں،محض یہ چاہتی ہے کہ اسے عزتِ نفس اور آزادی کے ساتھ، امن و امان کی حالت میں زندہ رہنے دیا جائے ۔ اور فوجی کارروائی کے اگلے دن سے ہی ہم سیاسی حل کے لیے اپنی کوششیں دگنی کر دینگے تا کہ ایسا سیاسی حل تلاش کر لیا جائے جس سے ان لوگوں کو توانائی ملے جو دہشتگردی کو اور انتہا پسندی کی طاقتوں کو مسترد کرتے ہیں ۔
آخر میں، آپ میں سے بہت سوں نے پوچھا ہے: اس مسئلے کو دوسرے ملکوں پر کیوں نہ چھوڑ دیا جائے یا ایسے حل کیوں نہ تلاش کیے جائیں جن میں طاقت استعمال نہ کرنی پڑے؟ جیسا کہ مجھے بہت سے لوگوں نے لکھا ہے"ہمیں ساری دنیا کا پولیس مین نہیں بننا چاہیئے۔"
میں اس خیال سے متفق ہوں، اور میں شدت سے ایسے حل پسند کرتا ہوں جو پُر امن ہوں۔ گذشتہ دو برسوں میں، میری انتظامیہ نے سفارتکاری اور پابندیاں، انتباہات اور مذاکرات، سبھی کو آزمایا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، اسد حکومت نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے ۔
تا ہم گذشتہ چند دنوں میں ، ہم نے بعض حوصلہ افزا علامتیں دیکھی ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے فوجی کارروائی کی قابلِ اعتبار دھمکی دی گئی ۔ اس کے علاوہ صدر پیوٹن کے ساتھ جو میرے تعمیری مذاکرات ہوئے ان کے نتیجے میں روسی حکومت نے اسد حکومت پر اپنے کیمیاوی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے پر دباؤ ڈالنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ۔ اسد حکومت نے اب یہ مان لیا ہے کہ اس کے پاس کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں، اور یہاں تک کہا ہے کہ وہ کیمیاوی ہتھیاروں کے کنونشن میں شریک ہو جائے گی ، جس کے تحت ان کا استعمال ممنوع ہے ۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ پیشکش کامیاب ہوگی یا نہیں، اور جو بھی سمجھوتہ ہو اس میں اس بات کی تصدیق کی جانی چاہیئے کہ اسد حکومت اپنے وعدوں پر قائم ہے ۔ لیکن اس تجویز میں یہ امکان موجود ہے کہ طاقت کا استعمال کیے بغیر کیمیاوی ہتھیاروں کا خطرہ دور ہوجائے، خاص طور سے اس لیے بھی کہ روس کا شمار اسد کے مضبوط ترین حلیفوں میں ہوتا ہے ۔
لہٰذا میں نے کانگریس کے لیڈروں سے کہا ہے کہ اب جب کہ ہم ڈپلومیسی کی اس راہ پر کام کر رہے ہیں، وہ طاقت کے استعمال کی منظوری کے ووٹ کو ملتوی کردیں ۔میں وزیرِ خارجہ جان کیری کو اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ جمعرات کو ملاقات کے لیے بھیج رہا ہوں، اور صدر پیوٹن کے ساتھ میں اپنی بات چیت بھی جاری رکھوں گا۔ میں نے اپنے دو قریب ترین حلیفوں، فرانس اور برطانیہ کے لیڈروں کے ساتھ بات کی ہے، اور ہم مل جل کر، روس اور چین کے مشوروں سے، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرار داد پیش کرنے کے لیے کام کریں گے جس کے تحت شام کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اپنے کیمیاوی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے اور بالآخر انہیں بین الاقوامی کنٹرول کے تحت تلف کردے ۔ ہم اقوامِ متحدہ کے انسپکٹروں کو بھی یہ موقع دیں گے 21 اگست کو جو کچھ ہوا اس کے بارے میں اپنی تفتیش کے نتائج کی رپورٹ پیش کریں۔اور ہم یورپ سے امریکی برِ اعظموں تک، ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ تک اپنے ان ا تحادیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے، جو کسی کارروائی کی ضرورت کے بارے میں ہم سے متفق ہیں ۔
اس دوران میں نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ اسد پر دباؤ قائم رکھنے کے لیے اور ڈپلومیسی کے ناکام ہونے کی صورت میں ضروری کارروائی کے لیےاپنی موجودہ تیاری کو قائم رکھے۔اور آج کی رات میں اپنی فوج اور ان کے خاندانوں کی بے اندازہ توانائی اور قربانیوں کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے ہم وطن امریکیو، تقریباً سات عشروں سے امریکہ نے عالمی سلامتی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ بین الاقوامی سمجھوتے کیے جائیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر عمل در آمد کرایا جائے ۔قیادت کی ذمہ داریوں کا بوجھ اکثر بہت گراں ہوتا ہے لیکن ہم نے یہ بوجھ اٹھایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا ایک بہتر جگہ ہے ۔
لہٰذا اپنے دائیں طرف کے دوستوں سے میں کہتا ہوں کہ آپ نے امریکہ کی فوجی طاقت قائم رکھنے کا جو عزم کیا ہے اسے کچھ نہ کرنے کے خیال سے ہم آہنگ کریں، جب کہ ہمارا موقف واضح طور پر منصفانہ ہے ۔ اپنے بائیں طرف کے دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ تمام بنی نوع انسان کی آزادی اور عزتِ نفس میں جو یقین رکھتے ہیں، اسے ان درد سے تڑپتے ہوئے ان بچوں کی تصویروں سے اور ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر پڑی ہوئی لاشوں سے ہم آہنگ کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات محض مذمت کی قر اردادیں اور بیانات کافی نہیں ہوتے۔
بلکہ میں کانگریس کے ہر رکن سے، اور ان تمام لوگوں سے جو آج شب گھر پر یہ تقریر سن رہے ہیں، کہوں گا کہ وہ اس حملے کے ویڈیوز دیکھیں اور پھر خود سے یہ سوال کریں: ہم کس قسم کی دنیا میں رہ رہے ہیں، اگر امریکہ یہ دیکھتا ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کھلم کھلا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زہریلی گیس استعمال کرتا ہے، اور ہم اپنی نظریں دوسری طرف کر لیتے ہیں؟
فرینکلن روزویلٹ نے ایک بار کہا تھا، "ہمارا یہ قومی عزم کہ ہم بیرونی جنگوں اور غیر ملکی تنازعات میں نہیں الجھیں گے، ہمیں گہری تشویش کے احساس سے باز نہیں رکھ سکتا، جب ہم یہ محسوس کریں کہ جو آدرش اور جو اصول ہمیں عزیز ہیں انہیں چیلنج کیا جا رہا ہے"۔ ہمارے آدرش اور اصول، نیز ہماری قومی سلامتی شام میں داؤپر لگی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسی دنیا میں ہماری قیادت کے لیے بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے جس میں ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دنیا میں بد ترین ہتھیار کبھی استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
امریکہ دنیا کا پولیس مین نہیں ہے۔ پورے کرۂ ارض میں ہولناک واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ہر چیز کو درست کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن جب معمولی سی کوشش اور خطرہ مول لے کر ہم بچوں کو زہریلی گیس سے موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتے ہیں، اور اس طرح خود اپنے بچوں کو طویل مدت کے لیے زیادہ محفوظ کر سکتے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کچھ کرنا چاہیئے ۔ یہی چیز ہے جو امریکہ کو مختلف بناتی ہے، یہی ہمارا خاصہ ہے۔ عاجزی کے ساتھ، لیکن عزمِ مصمم کے ساتھ عہد کیجیئے کہ ہم اس بنیادی سچائی کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے۔
آپ کا شکریہ۔ آپ پر خدا کی برکتیں نازل ہوں۔ اور امریکہ پر خدا کی برکتیں نازل ہوں۔
###
XS
SM
MD
LG