واشنگٹن —
جوہنسبرگ میں جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات کی تقریب میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ماتم گُساروں میں صدر براک اوباما نے جو تقریر کی تھی، اُس پر ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ اس تقریر نے تقریب میں موجود دسیوں ہزاروں لوگوں اور لگ بھگ 100 سر براہانِ مملکت کے دلوں میں یہ اُمنگ پیدا کی کہ وُہ بیسویں صدی کے اس آخری عظیم بطلِ حرّیت کی تقلید کریں۔
منڈیلا کی تعریف میں اباما کا یہ خطاب اس یادگار تقریب کا نقطہٴعروج تھا، جس میں جنوبی افریقہ کے عوام نےگانے گا کر اور رقص کرکے جُدا ہونے والے قائد سے اپنے لگاؤ اور عقیدت کا اظہار کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما نے لوگوں سے اپیل کی کہ وُہ منڈیلا کے امن اور انصاف کے عالمگیر پیغام سے ہدائت حاصل کریں۔
اور اُنہوں جنوبی افریقہ کے اس لیڈر کا مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور ابراہام لنکن سے موازنہ کرتے ہوئے، کہا کہ نسل پرست سفید فام حکومت کی جیل میں27 سال کی سزاٴ کاٹنے کے بعد جب اُنہیں رہائی ملی تو اُنہوں نے معاف کرنے اور مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمیں نیلسن منڈیلا جیسا رہنما تو اب نصیب نہ ہوگا، لیکن جنوبی افریقہ کے نوجوانوں، بلکہ دنیا بھر کے نوجوانوں سے میں یہی کہونگا کہ آپ ان کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں۔
مسٹر اوباما نے جو مسٹر منڈیلا کی طرح اپنے ملک میں منتخب ہونے والے پہلے سیاہ فام صدر ہیں، بتایا کہ طالب علمی کے دور میں کیونکر منڈیلا اُن کے لئے مِشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ جس پر حاضرین نے زوردار تالیوں سے اور بہت سے سربراہانِ مملکت اور غیر ملکی عمائدین نے کھڑے ہو کر داد دی اور مسٹر اوباما نے اس تلخ حقیقت کی طرف بھی توجّہ دلائی کہ دنیا بھر میں اب بھی ایسے مرد اور عورتیں ہیں جن پر اُن کے رنگ و نسل، اُن کی پسند اور ناپسند یا اُن کے اعتقادات کی بنا پر ظلم توڑے جا رہے ہیں۔
تقریب میں شرکت کرنے والے جن لیڈروں کے خلاف عوام نے ان کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، ان میں زمبابوے کے رابرٹ مُوگابے اور گِنی اور گیمبیا کے صدور شامل ہیں۔
خود جنوبی افریقہ کے موجودہ صدر ،جیکب ذُوما پر بھی آوازے کسے گئے، کیونکہ اُن کے بارے میں بھی کرپشن کے متعدد سکینڈل ہیں۔
جوہینسبرگ میں اس یادگار تقریب کے بعد منڈیلا کا جسد خاکی پری ٹوریا کی یونین بلڈنگ میں تین دن تک اعزاز کے ساتھ رکھا جائے گا۔ اور پھر اتوار کو مشرقی کیپ میں اُن کے آبائی گاؤں قُونُو میں دفنایا جائے گا۔
ادھر، ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو واجب سزاٴجرم قرار دینے کا جو اہم فیصلہ صادر کیا ہے، ’یُو ایس اے ٹوڈے‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، ملک بھر میں اُس کے خلاف سخت ردّ عمل ہوا ہے۔
عدالت نے نو آبادیاتی دور کے اس قانون کو بحال کر دیا ہے، جسےایک کمتر عدالت نے کالعدم قرار دیا تھا اور جس کے تحت، ہم جنس پرستی فطرت کے منافی ہے اور جس پر دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اور ججوں کا کہنا ہے کہ اسے بدلنے کااختیار اب کسی عدالت کو نہیں۔ بلکہ، صرف ملک کی پارلیمنٹ کو ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ہندوستان بھر میں ہم جنس پرستوں کی برادری نے اس فیصلے پر اپنی حیرت اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس فیصلے کے اعلان کے بعد درجنوں سرگرم کارکنوں نے عدالت کے باہر رونا دھونا شروع کیا، اور وُہ بغلگیر ہوکر ایک دوسرے کو تسلّی دیتے رہے۔
وکلاٴ اور ہم جنس پرستوں کے حامیوں نے عہد کیا ہے کہ وُہ اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے، جو اُن کی نظر میں اُن کے خلاف امتیازی سلوک کی اجازت دیتا ہے۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی دور کے اس قانون کا شاذ ہی استعمال ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے ہجڑوں کے وجود کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے، جس کی ابتداٴ کئی ہزار برس پہلے ہوئی تھی جب ہجڑوں اور ہم جنس پرستوں کا معاشرے میں اہم مقام تھا۔
سنہ 2009 میں حکومت نے اُنہیں مرد اور عورت کے علاوہ – مردم شماری کے ایک نئے خانے میں اپنا نام درج کرانے کی اجازت دی تھی۔ بھارتی وزیر قانون کپیل سبل نے عدالت کے فیصلے پر کُچھ نہیں کہا ہے۔ البتہ، یہ واضح کردیا ہے کہ قانون پر حتمی رائے پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔
پاکستانی فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کے تقرر پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ نئے فوجی سربراہ سے سرکاری سطح پر لین دین شروع کرنے سے پہلے امریکی سفارت کاوں کو پاکستان کی سویلین حکومت سے کہنا چاہئے کہ سنہ 2014 کے اوائیل میں ہونے والے اگلے وزارتی سطح کے مذاکرات میں جنر ل شریف کو شامل کیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ سویلین ذرائع کے ذریعے لین دین سے اور مشترکہ سویلین اور فوجی مذاکرات پر اصرار کرنے سے واشنگٹن اُن سابقہ طریقوں سے اجتناب کرے گا، جن سے ایسا لگ رہا تھا کہ سویلین سطح پر تعلّقات کے مقابلے میں ایسے تعلقات کو ترجیح دی جا رہی ہے، جن میں فوج کا سابقہ فوج کے ساتھ ہوتا تھا۔ سیکیورٹی سے متعلق دو طرفہ مذاکرات، سازو سامان کی فراہمی، تربیت اور انٹلی جنس کے تبادلے کے لئے ہونے چاہیئں، تاکہ طالبان کے خلاف پاکستان کو مدد دی جائے۔ اورامریکہ کو زور دے کر یہ واضح کر دینا چاہئے کہ وُہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر ڈٹا رہےگا اور جوہری عدم پھیلاؤ اور پاکستان کے پڑوس میں امن کے فروغ کے موقف پر بھی ڈٹا رہے گا، چاہے اس میں پاکستان پورا تعاون کرے یا نہ کرے۔
منڈیلا کی تعریف میں اباما کا یہ خطاب اس یادگار تقریب کا نقطہٴعروج تھا، جس میں جنوبی افریقہ کے عوام نےگانے گا کر اور رقص کرکے جُدا ہونے والے قائد سے اپنے لگاؤ اور عقیدت کا اظہار کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما نے لوگوں سے اپیل کی کہ وُہ منڈیلا کے امن اور انصاف کے عالمگیر پیغام سے ہدائت حاصل کریں۔
اور اُنہوں جنوبی افریقہ کے اس لیڈر کا مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور ابراہام لنکن سے موازنہ کرتے ہوئے، کہا کہ نسل پرست سفید فام حکومت کی جیل میں27 سال کی سزاٴ کاٹنے کے بعد جب اُنہیں رہائی ملی تو اُنہوں نے معاف کرنے اور مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمیں نیلسن منڈیلا جیسا رہنما تو اب نصیب نہ ہوگا، لیکن جنوبی افریقہ کے نوجوانوں، بلکہ دنیا بھر کے نوجوانوں سے میں یہی کہونگا کہ آپ ان کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں۔
مسٹر اوباما نے جو مسٹر منڈیلا کی طرح اپنے ملک میں منتخب ہونے والے پہلے سیاہ فام صدر ہیں، بتایا کہ طالب علمی کے دور میں کیونکر منڈیلا اُن کے لئے مِشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ جس پر حاضرین نے زوردار تالیوں سے اور بہت سے سربراہانِ مملکت اور غیر ملکی عمائدین نے کھڑے ہو کر داد دی اور مسٹر اوباما نے اس تلخ حقیقت کی طرف بھی توجّہ دلائی کہ دنیا بھر میں اب بھی ایسے مرد اور عورتیں ہیں جن پر اُن کے رنگ و نسل، اُن کی پسند اور ناپسند یا اُن کے اعتقادات کی بنا پر ظلم توڑے جا رہے ہیں۔
تقریب میں شرکت کرنے والے جن لیڈروں کے خلاف عوام نے ان کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، ان میں زمبابوے کے رابرٹ مُوگابے اور گِنی اور گیمبیا کے صدور شامل ہیں۔
خود جنوبی افریقہ کے موجودہ صدر ،جیکب ذُوما پر بھی آوازے کسے گئے، کیونکہ اُن کے بارے میں بھی کرپشن کے متعدد سکینڈل ہیں۔
جوہینسبرگ میں اس یادگار تقریب کے بعد منڈیلا کا جسد خاکی پری ٹوریا کی یونین بلڈنگ میں تین دن تک اعزاز کے ساتھ رکھا جائے گا۔ اور پھر اتوار کو مشرقی کیپ میں اُن کے آبائی گاؤں قُونُو میں دفنایا جائے گا۔
ادھر، ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو واجب سزاٴجرم قرار دینے کا جو اہم فیصلہ صادر کیا ہے، ’یُو ایس اے ٹوڈے‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، ملک بھر میں اُس کے خلاف سخت ردّ عمل ہوا ہے۔
عدالت نے نو آبادیاتی دور کے اس قانون کو بحال کر دیا ہے، جسےایک کمتر عدالت نے کالعدم قرار دیا تھا اور جس کے تحت، ہم جنس پرستی فطرت کے منافی ہے اور جس پر دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اور ججوں کا کہنا ہے کہ اسے بدلنے کااختیار اب کسی عدالت کو نہیں۔ بلکہ، صرف ملک کی پارلیمنٹ کو ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ہندوستان بھر میں ہم جنس پرستوں کی برادری نے اس فیصلے پر اپنی حیرت اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس فیصلے کے اعلان کے بعد درجنوں سرگرم کارکنوں نے عدالت کے باہر رونا دھونا شروع کیا، اور وُہ بغلگیر ہوکر ایک دوسرے کو تسلّی دیتے رہے۔
وکلاٴ اور ہم جنس پرستوں کے حامیوں نے عہد کیا ہے کہ وُہ اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے، جو اُن کی نظر میں اُن کے خلاف امتیازی سلوک کی اجازت دیتا ہے۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی دور کے اس قانون کا شاذ ہی استعمال ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے ہجڑوں کے وجود کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے، جس کی ابتداٴ کئی ہزار برس پہلے ہوئی تھی جب ہجڑوں اور ہم جنس پرستوں کا معاشرے میں اہم مقام تھا۔
سنہ 2009 میں حکومت نے اُنہیں مرد اور عورت کے علاوہ – مردم شماری کے ایک نئے خانے میں اپنا نام درج کرانے کی اجازت دی تھی۔ بھارتی وزیر قانون کپیل سبل نے عدالت کے فیصلے پر کُچھ نہیں کہا ہے۔ البتہ، یہ واضح کردیا ہے کہ قانون پر حتمی رائے پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔
پاکستانی فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کے تقرر پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ نئے فوجی سربراہ سے سرکاری سطح پر لین دین شروع کرنے سے پہلے امریکی سفارت کاوں کو پاکستان کی سویلین حکومت سے کہنا چاہئے کہ سنہ 2014 کے اوائیل میں ہونے والے اگلے وزارتی سطح کے مذاکرات میں جنر ل شریف کو شامل کیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ سویلین ذرائع کے ذریعے لین دین سے اور مشترکہ سویلین اور فوجی مذاکرات پر اصرار کرنے سے واشنگٹن اُن سابقہ طریقوں سے اجتناب کرے گا، جن سے ایسا لگ رہا تھا کہ سویلین سطح پر تعلّقات کے مقابلے میں ایسے تعلقات کو ترجیح دی جا رہی ہے، جن میں فوج کا سابقہ فوج کے ساتھ ہوتا تھا۔ سیکیورٹی سے متعلق دو طرفہ مذاکرات، سازو سامان کی فراہمی، تربیت اور انٹلی جنس کے تبادلے کے لئے ہونے چاہیئں، تاکہ طالبان کے خلاف پاکستان کو مدد دی جائے۔ اورامریکہ کو زور دے کر یہ واضح کر دینا چاہئے کہ وُہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر ڈٹا رہےگا اور جوہری عدم پھیلاؤ اور پاکستان کے پڑوس میں امن کے فروغ کے موقف پر بھی ڈٹا رہے گا، چاہے اس میں پاکستان پورا تعاون کرے یا نہ کرے۔