رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: کوئٹہ کی ہزارہ برادری


’نیو یارک ٹائمز‘کہتا ہے کہ عام طور پر باور کیا جاتا ہےکہ اِن تباہ کُن بم دھماکوں کا تعلّق انتہا پسند فرقہ وارانہ تنظیم لشکر طیبہ سے ہے

پاکستان میں شیعہ برادری کی تین روزہ ہڑتال حکومت کی طرف سے اس وعدے پر ختم ہو گئی ہےکہ اُن فرقہ پرست انتہا پسندوں کا پتہ لگایا جائے گاجنہوں نےہفتے کےروز کوئٹہ میں ایک تباہ کُن بم دھماکے میں 90 افراد کو ہلاک کیا۔

اِس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ شہر کی خطر زدہ ہزارہ برادری پراس حملے سے حکومت کو ندامت اُٹھانی پڑی ہے، کیونکہ اِس سےمحض پانچ ہفتےقبل اسی شہر میں ایک ایسے ہی حملے میں 100ہزارا ہلاک ہوئےتھے۔

اخبار کہتاہےکہ ان حملوں کی فوج کی طرف سےبھی بڑی کڑی تنقید ہوئی ہے،جن سے ملک میں ہونے والےفرقہ وارارنہ خون خرابےکو روکنے میں ملک کی سیکیورٹی سروسز کی ناکامی آشکارا ہوئی ہے۔

وزیر اعظم پرویز اشرف نےشیعہ برادری کی تسلّی کےلئےایک چھ رکنی وفد کوئٹہ بھیجا اور اس حملے کےلئے ذمّہ دار انتہاپسندوں کے خلاف ڈُھونڈ ڈُھونڈ کر کاروائی کرنے کا وعدہ کیا۔

اخبارکہتا ہے کہ عام طور پر باور کیا جاتا ہےکہ اُن کا تعلّق انتہا پسند فرقہ وارانہ تنظیم لشکر طیبہ سے ہے۔

اخبار کہتاہے کہ کوئٹہ میں ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ اسی تنظیم نے کیا ہے، لیکن اس کے باوجود وُہ بلوچستان میں کھلم کُھلا سرگرم عمل ہے۔ اور اس کے لیڈر ملک میں بلاخوف و خطر گُھوم پھر رہے ہیں اور فرقہ وارارنہ منافرت پھیلا رہے ہیں، جب کہ فوج پر الزام ہے کہ وہ ان کی چشم پوشی کر رہی ہے۔ اور صوبے کی حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہےکہ ان انتہا پسندوں کو قوم پرستوں کو کُچلنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اخبار نے پاکستانی صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے سینیٹ میں اس بیان کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بلوچستان میں بعض انتہا پسندوں کو خُفیہ امداد ملتی رہی ہے اور اُنہوں نے خاص طور پر یہ بات نوٹ کی ہے کہ لشکر جھنگوی کے دو لیڈر عُثمان کُرد اور داؤود بدینی چار سال قبل پُراسرار طور پر کوئٹہ کی ایک جیل سے فرار ہو گئے تھے۔

اخبار نے عسکریت پسندی کے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسٹر کُرد بلوچستان میں لشکر کے سربراہ مانے جاتے ہیں اور انسانی قتل عام کی زیادہ تر وارداتوں کے پیچھے انہی کا ہاتھ تھا۔


نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ پیر کے روز خُود بلوچستان کے گورنر ذوالفقار علی مگسی نے انٹلی جنس سروسز پر الزام لگایا کہ یا تو وُہ انتہا پسندوں کا پیچھا کرنے سے خوف زدہ ہیں یا پھر اُنہیں اُن کے بارے میں بالکل کوئی سُراغ نہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ حکومت ہزارہ برادری کا غصّہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں اُن کے ہلاک ہونے والے ہر فرد کے اہل خانہ کو دس دس ہزار ڈالر کے مساوی رقم کی پیش کش کر رہی ہے۔ اور اُس نے صوبائی پولیس سربراہ کو برطرف کرکے پنجاب کے انسداد دہشت گردی کے ایک سینیر ماہر مُشتاق سُکھیرا کو اُس کی جگہ مقرر کیا ہے۔

ہزارہ شیعہ برادری پر کوئٹہ میں ان خوفناک حملوں سے متعلق ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں بھی ایک تفصیلی رپورٹ چھپی ہے جس کے مطابق، پاکستانی شیعہ برادری کا موقف ہے کہ سُنّی انتہا پسندوں کے خلاف نیم فوجی دستوں کی کاروائی کافی نہیں ہے، جب کہ ہزارہ لیڈروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے موسم گرما میں اُن کی تحفّظ فراہم کرنے کی اپیل کو نظرانداز کردیا تھا جس کے کچھ ماہ بعد ایک شیعہ محلّے میں لشکر جھنگوی نے بم دھماکے کئے۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت عام طور پر ہمیشہ فوج کے دباؤ کے سامنے جُھک جاتی ہے جس کا موقف یہ ہوتا ہے کہ طالبان بغاوت کے خلاف کاروائی کی وجہ سے اس کے وسائیل پر اتنا دباؤ ہے کہ وہ نئی کاروائی کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی
۔

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہےکہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ہندوستان کے تین روزہ دورے کے آخری روز امرتسر جانے کا جراٴتمندانہ فیصلہ کیا جہاں انہوں نے جلیانوالہ باغ میں شہیدوں کی یادگار پر پھول چڑھائے۔ سنہ1919 میں برطانوی نو آبادیاتی فوج نے ہزاروں نہتے احتجاجی مظاہرین پر گولی چلادی تھی جس میں شہید ہونے والوں کے اعزاز میں یہ یادگار قائم ہے۔ مسٹر کیمرارون نے اسے برطانوی تاریخ کے ایک نہائت ہی شرمناک واقعے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جو کُچھ ہوا وہ ہمیں کبھی نہ بھولنا چاہئے، اور یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ برطانیہ ساری دُنیا میں پُرامن احتجاج کا حامی ہے۔
XS
SM
MD
LG