کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ ہفتہ کو ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو نے والے افراد کو چار روز کے بعد سُپرد خاک کردیا گیا جب کہ تدفین کے بعد بعض لواحقین نے کراچی، چمن قومی شاہراہ پر دھرنا دینے کی کوشش کی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اور لیویز نے اُنھیں روکنے کی کو شش کی ، جس پر احتجاج کرنے والوں میں سے بعض افراد نے پستول سے ہوائی فائرنگ کی اور ڈپٹی کمشنر کی گاڑی ، پولیس اور لیویز اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا جس سے لیویز کا ایک اہلکار زخمی ہو گیا۔
فرنٹئیر کور اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جس سے تدفین کا عمل بھی تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا تاہم شیعہ علما اور ہزارہ قبائلی عمائدین سے بات چیت کے بعد میتوں کو سُپرد خاک کر دیا گیا۔
کوئٹہ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار سی سی پی او میر زبیر احمد نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تمام میتوں کو سُپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
’’تدفین تقریباً مکمل ہو گئی ہے، کچھ لوگ جذبات میں آئے تھے اور انھوں نے پتھراؤ بھی کیا۔‘‘
ہزارہ قومی جرگہ کے سر براہ قیوم چینگزی نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ شیعہ ہزارہ برادری پر حملے کر نے والے لوگوں کے خلاف حکومتی اقدامات سے کم از کم وہ خود مطمئن ہیں اس لیے تدفین کافیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا۔
’’جو ہمارے مطالبات تھے وہ حکومت نے قبول کر لیے ہیں، البتہ کہیں تھوڑی بہت خامیاں رہ جاتی ہیں لیکن سب کو قابو کیا جا سکتا ہے۔‘‘
شیعہ ہزارہ برادری پر ہفتے کو ہونے والے بم حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے خلاف کوئٹہ کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ رواں سال کے دوران شیعہ ہزارہ برادری پر یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔
اس سے قبل دس جنوری کو شہر میں اس برادری کے علاقے علمدار روڈ پر ہو نے والے یکے بعد دیگر ے دو بم دھماکوں سے سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس واقعے کے بعد بھی لواحقین نے مر نے والوں کی تدفین سے اپنے مطالبات کی منظوری تک انکار کر دیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم نے صوبائی حکومت کو برطر ف کر کے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
اُدھر کوئٹہ کے واقعے پر عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کی سماعت بدھ کو بھی ہوئی جس میں تین رکنی بینچ کے سامنے سیکرٹری دفاع یسین ملک نے واقعے کی ذمہ داری سول انتظامیہ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ماتحت خفیہ اداروں کا کام محض معلومات کا تبادلہ ہے۔
تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سیکرٹری دفاع کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں واقعے کے ذمہ داران اور فرائض میں غفلت برتنے والوں کی نشاندہی نہیں کی گئی اس لیے یہ رپورٹ مکمل کر کے دوبارہ جمع کرائی جائے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اور لیویز نے اُنھیں روکنے کی کو شش کی ، جس پر احتجاج کرنے والوں میں سے بعض افراد نے پستول سے ہوائی فائرنگ کی اور ڈپٹی کمشنر کی گاڑی ، پولیس اور لیویز اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا جس سے لیویز کا ایک اہلکار زخمی ہو گیا۔
فرنٹئیر کور اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جس سے تدفین کا عمل بھی تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا تاہم شیعہ علما اور ہزارہ قبائلی عمائدین سے بات چیت کے بعد میتوں کو سُپرد خاک کر دیا گیا۔
کوئٹہ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار سی سی پی او میر زبیر احمد نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تمام میتوں کو سُپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
’’تدفین تقریباً مکمل ہو گئی ہے، کچھ لوگ جذبات میں آئے تھے اور انھوں نے پتھراؤ بھی کیا۔‘‘
ہزارہ قومی جرگہ کے سر براہ قیوم چینگزی نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ شیعہ ہزارہ برادری پر حملے کر نے والے لوگوں کے خلاف حکومتی اقدامات سے کم از کم وہ خود مطمئن ہیں اس لیے تدفین کافیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا۔
’’جو ہمارے مطالبات تھے وہ حکومت نے قبول کر لیے ہیں، البتہ کہیں تھوڑی بہت خامیاں رہ جاتی ہیں لیکن سب کو قابو کیا جا سکتا ہے۔‘‘
شیعہ ہزارہ برادری پر ہفتے کو ہونے والے بم حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے خلاف کوئٹہ کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ رواں سال کے دوران شیعہ ہزارہ برادری پر یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔
اس سے قبل دس جنوری کو شہر میں اس برادری کے علاقے علمدار روڈ پر ہو نے والے یکے بعد دیگر ے دو بم دھماکوں سے سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس واقعے کے بعد بھی لواحقین نے مر نے والوں کی تدفین سے اپنے مطالبات کی منظوری تک انکار کر دیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم نے صوبائی حکومت کو برطر ف کر کے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
اُدھر کوئٹہ کے واقعے پر عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کی سماعت بدھ کو بھی ہوئی جس میں تین رکنی بینچ کے سامنے سیکرٹری دفاع یسین ملک نے واقعے کی ذمہ داری سول انتظامیہ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ماتحت خفیہ اداروں کا کام محض معلومات کا تبادلہ ہے۔
تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سیکرٹری دفاع کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں واقعے کے ذمہ داران اور فرائض میں غفلت برتنے والوں کی نشاندہی نہیں کی گئی اس لیے یہ رپورٹ مکمل کر کے دوبارہ جمع کرائی جائے۔