واشنگٹن —
جنوبی افریقہ کے مایہ ناز سپوت، نیلسن منڈیلا کی وفات پر امریکی ذرائع ابلاغ میں جس عقیدت اور احترام سے خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔
اس کی بہترین ترجمانی، ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں ان الفاظ میں کی ہے۔ نیلسن منڈیلا کو جن کا 95 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے، پچھلی رُبع صدی کے دوران پوری دنیا میں ایک نہائت ہی قد آور شخصیت کا جو شُہرہ تھا، وُہ اس کے ہر لحاظ سے مُستحق تھے۔ وُہ کسی بھی برّاعظم میں پیدا ہونے والے تحریک آزادی کے سب سے زیادہ غیرمعمولی لیڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے لوگوں کو زندگی کے ہر شعبے میں سختی سے قائم نسلی علیٰحدگی پسندی کےمذموم نظام سے نہ صرف چھٹکارا دلا دیا۔ بلکہ، اس میں کوئی قتل و خوں بھی نہ ہونے دیا جس کی بُہت سوں نے پیشگوئی کی تھی،اور پھر جنوبی افریقہ کے تمام لوگوں کی پوری شرکت سے منتخب ہونے والے پہلے صدر کی حیثیت سے اُنہوں نے سچائی اور مصالحت کے تاریخی عمل کی قیادت کی، جس کی بدولت بالآخر نسلی علیٰحدگی پسندی کے ستائے ہوئے لوگوں کی کُچھ اشک شوئی ہوئی۔ اور اُن کے دُکھوں کا اعتراف کیا گیا۔
مسٹر منڈیلا کی بے پناہ اخلاقی قوّت نے اُنہیں نسلی علیٰحدگی پسندی کے خلاف طویل جدوجہد میں بالآخر فتح سے ہمکنار کیا اور ان کے سیاسی تدبُّر اور حوصلے نے اُنہیں تباہ کن انتقامی راستہ اختیار کرنے کی بجائے تعمیری مصالحت کی راہ پر لگا دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر منڈیلا نے اپنی زندگی کا بیش بہا وقت قید میں گزارا اور جب اقتدار سنبھالا، تو وہ 75 برس کے ہو چکے تھے۔ اور چار برس بعد قیادت سے ریٹائر ہوگئے۔
اخبار کو اس پر افسوس ہے کہ ان کے جانشین ان کے ہم پلّہ ثابت نہیں ہوئے ہیں، اور نسلی علیٰحدگی پسندی کے خاتمے کے باوجود، ملک کے لاکھوں عوام غُربت اور مُفلسی کا شکار ہیں۔ اب ان مسائیل کے حل کا دارومدار اُس ملک کے لیڈروں کی نئی پود پر ہے جس پر نیلسن منڈیلا کا تاریخی احسان ہے۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ نیلسن منڈیلا کو بیسویں صدی کی دیو قامت شخصیتوں میں قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ اور مہاتماگاندھی کی طرح اُنہیں اُن کی بصیرت، جُرّاٴت اور اُن بے پناہ ذاتی قُربانیوں کے لئے دُنیا بھر میں عزّت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جو اُنہوں نے اپنے ملک کی ناانصافیوں کو درُست کرنے کے لئے دیں۔ نسلی علیٰحدگی پسندی گوری اقلیّتی حکومت کے خلاف اُن کی نصف صدی پر محیط جدوجہد میں 27 سال کی قید شامل تھی۔
لیکن 1990 ءمیں فاتح کی حیثیت سےرہائی کے بعد وہ اپنے اصولوں اور وقار پر ڈٹّے رہے، اور اُنہوں نے نہ تو کسی غصّے اور نہ انتقامی جذبے کا اظہار کیا۔ اور بالآخر اپنی افریکن نیشنل کانگریس کو سیاہ فام اکثریت کا راج قائم کرنے کے قابل بنایا۔ لیکن، اخبار نے جنوبی افریقہ کی موجودہ صورت حال کیطرف بھی توجّہ دلائی ہے۔ جہاں، بقول اخبار کے، نئی قیادت نے منڈیلا کی اُس میراث کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو نسلی مساوات اور اعتدال پسندی سے عبارت تھی۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ جب نیلسن منڈیلا 1990 ءمیں قید سے رہا ہوئے تو اُن کا سیاسی قد جنوبی افریقہ کے کسی سفید فام یا سیاہ فام لیڈر کے مقابلے میں کہیں اُونچا تھا۔ اور انہوں نے مصالحت، افہام و تفہیم اور درگُذر کا راستہ اختیار کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر منڈیلا کا اثرو نفوذ ان کے ملک جنوبی افریقہ سے بُہت ماورا جاتا ہے، اور افریقیوں کے علاوہ دنیا کی دوسری قوموں نے بھی اسے محسوس کیا ہے، اور اب جب وہ ہمارے اندر نہیں رہے، دنیا کے لئے یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوگئی ہے کہ وہ دہشت اور مذہبی عدم رواداری کی ایک صدی کے بعد نیلسن منڈیلا کی مثال اپنے سامنے رکھے۔
اس کی بہترین ترجمانی، ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں ان الفاظ میں کی ہے۔ نیلسن منڈیلا کو جن کا 95 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے، پچھلی رُبع صدی کے دوران پوری دنیا میں ایک نہائت ہی قد آور شخصیت کا جو شُہرہ تھا، وُہ اس کے ہر لحاظ سے مُستحق تھے۔ وُہ کسی بھی برّاعظم میں پیدا ہونے والے تحریک آزادی کے سب سے زیادہ غیرمعمولی لیڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے لوگوں کو زندگی کے ہر شعبے میں سختی سے قائم نسلی علیٰحدگی پسندی کےمذموم نظام سے نہ صرف چھٹکارا دلا دیا۔ بلکہ، اس میں کوئی قتل و خوں بھی نہ ہونے دیا جس کی بُہت سوں نے پیشگوئی کی تھی،اور پھر جنوبی افریقہ کے تمام لوگوں کی پوری شرکت سے منتخب ہونے والے پہلے صدر کی حیثیت سے اُنہوں نے سچائی اور مصالحت کے تاریخی عمل کی قیادت کی، جس کی بدولت بالآخر نسلی علیٰحدگی پسندی کے ستائے ہوئے لوگوں کی کُچھ اشک شوئی ہوئی۔ اور اُن کے دُکھوں کا اعتراف کیا گیا۔
مسٹر منڈیلا کی بے پناہ اخلاقی قوّت نے اُنہیں نسلی علیٰحدگی پسندی کے خلاف طویل جدوجہد میں بالآخر فتح سے ہمکنار کیا اور ان کے سیاسی تدبُّر اور حوصلے نے اُنہیں تباہ کن انتقامی راستہ اختیار کرنے کی بجائے تعمیری مصالحت کی راہ پر لگا دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر منڈیلا نے اپنی زندگی کا بیش بہا وقت قید میں گزارا اور جب اقتدار سنبھالا، تو وہ 75 برس کے ہو چکے تھے۔ اور چار برس بعد قیادت سے ریٹائر ہوگئے۔
اخبار کو اس پر افسوس ہے کہ ان کے جانشین ان کے ہم پلّہ ثابت نہیں ہوئے ہیں، اور نسلی علیٰحدگی پسندی کے خاتمے کے باوجود، ملک کے لاکھوں عوام غُربت اور مُفلسی کا شکار ہیں۔ اب ان مسائیل کے حل کا دارومدار اُس ملک کے لیڈروں کی نئی پود پر ہے جس پر نیلسن منڈیلا کا تاریخی احسان ہے۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ نیلسن منڈیلا کو بیسویں صدی کی دیو قامت شخصیتوں میں قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ اور مہاتماگاندھی کی طرح اُنہیں اُن کی بصیرت، جُرّاٴت اور اُن بے پناہ ذاتی قُربانیوں کے لئے دُنیا بھر میں عزّت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جو اُنہوں نے اپنے ملک کی ناانصافیوں کو درُست کرنے کے لئے دیں۔ نسلی علیٰحدگی پسندی گوری اقلیّتی حکومت کے خلاف اُن کی نصف صدی پر محیط جدوجہد میں 27 سال کی قید شامل تھی۔
لیکن 1990 ءمیں فاتح کی حیثیت سےرہائی کے بعد وہ اپنے اصولوں اور وقار پر ڈٹّے رہے، اور اُنہوں نے نہ تو کسی غصّے اور نہ انتقامی جذبے کا اظہار کیا۔ اور بالآخر اپنی افریکن نیشنل کانگریس کو سیاہ فام اکثریت کا راج قائم کرنے کے قابل بنایا۔ لیکن، اخبار نے جنوبی افریقہ کی موجودہ صورت حال کیطرف بھی توجّہ دلائی ہے۔ جہاں، بقول اخبار کے، نئی قیادت نے منڈیلا کی اُس میراث کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو نسلی مساوات اور اعتدال پسندی سے عبارت تھی۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ جب نیلسن منڈیلا 1990 ءمیں قید سے رہا ہوئے تو اُن کا سیاسی قد جنوبی افریقہ کے کسی سفید فام یا سیاہ فام لیڈر کے مقابلے میں کہیں اُونچا تھا۔ اور انہوں نے مصالحت، افہام و تفہیم اور درگُذر کا راستہ اختیار کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر منڈیلا کا اثرو نفوذ ان کے ملک جنوبی افریقہ سے بُہت ماورا جاتا ہے، اور افریقیوں کے علاوہ دنیا کی دوسری قوموں نے بھی اسے محسوس کیا ہے، اور اب جب وہ ہمارے اندر نہیں رہے، دنیا کے لئے یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوگئی ہے کہ وہ دہشت اور مذہبی عدم رواداری کی ایک صدی کے بعد نیلسن منڈیلا کی مثال اپنے سامنے رکھے۔