واشنگٹن —
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سنّیوں اور شیعوں کے مابین جو طویل آویزش چلی آرہی ہے۔ عراق کے اندر اُس کا خوف ناک احیاٴ ہوا ہے اور رواں سال کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک 5300 عراقی ہلاک ہوچُکے ہیں۔ یہ تعداد سنہ 2008 میں امریکی قبضے کے وقت کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جب عراقی صدر نوری المالکی جمعےکو صدر اوباما سے ملاقات کریں گے، تو دونوں لیڈروں پر اِس بات پر اصرار کرنا لازم ہے کہ عراقی مذہبی شخصیات اقتدار کے حصول کے لئے مسابقت بند کریں، جس کی وجہ سے اِس تشدّد کو ہوا مل رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سال وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری غالباً القاعدہ سے وابستہ تنظیموں پر آتی ہے، جسے عراق کی اقلیت یعنی سنیوں کی پھر سے حمائت حاصل ہوگئی ہے، کیونکہ اُنہیں مسٹر مالکی کی شیعہ قیادت میں قائم مرکزی حکومت کے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم پر غصّہ ہے۔
دو سال قبل، امریکی فوجوں کی عراق واپسی کے بعد مسٹر مالکی نے مقامی قبائیلی لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کامیاب امریکی حکمت عملی پر عمل درآمد بند کر دیا ہے، جس کی بدولت شیعہ سنّی تناؤ پر قابو پایا جاتا تھا۔ بلکہ، مسٹر مالکی نے تمام اقتدار اپنے ہاتھ میں یا اپنی شیعہ نواز پارٹی کے ہاتھ میں دے رکھا ہے۔ اور اس طرح، انہوں نے منتخب سنّی لیڈروں کی دشمنی مول لی ہے۔چنانچہ، اس نئے تناؤ سے تشدّد کو ہوا لگی ہے اور اُن کوششوں کو نقصان پہنچا ہے، جو سنہ 2003 میں امریکی حملے کے بعد قومی یگانگت کو فروغ دینے کے لئے شروع کی گئی تھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انتخابات کی بدولت، عراق کا مستقبل ابھی بھی سُدھر سکتا ہے، بشرطیکہ ملک کے سُنّی اور شیعہ لیڈر، سیاست میں دخل اندازی کرنا بند کریں، جس کی بہترین مثال آئت اللہ علی سیستانی کی شخصیت ہے، جو ایرانی شیعہ علما کے ساتھ اپنے مذہبی تعلّقات کے باوجود، ایران کی اُس طرز حکومت کے خلاف ہیں، جہاں ایک سیکیولر حکومت پر ملّاؤوں کا تصرّف ہے۔ اُنہوں نے حال ہی میں بعض شیعہ اور سنّی لیڈروں کے ساتھ مل کر مصالحت کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی فرقہ دوسرے فرقے پر نہ تو اہانت کا الزام لگائے گا اور نہ اُسے اپنا دشمن سمجھے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ عراق میں اوسطاً 18 افراد روزانہ مذہبی تشدّد کی بھینٹ چڑھتے ہیں، اور عراقی اپنی جانی حفاظت اور جمہوریت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ مسٹر مالکی نے سنہ 2006 میں صدر بننےکے بعد، فرقہ واریت کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا ہے، اور اب جب وہ فوجی امداد کے حصول کے لئے واشنگٹن آئیں گے، تو یہ ان کو یہ یاد دلانے کا اچھا موقع ہوگا کہ وہ اپنی راہ درست کریں۔
امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی سمندر پار ملکوں میں جاسوسی کی سرگرمیوں پر ’بالٹی مور سن‘ اخبار میں ڈیوڈ ہارسی رقمطراز ہیں کہ اس ہفتے صدر اوباما کو یورپی لیڈروں کی طرف سے فون پہ فون آتے رہے۔ پہلا فون فرانس کے صدر فرانسواں اولاں کا تھا، جنہوں نے شکائت کی کہ اس ایجنسی کے سابق کارندے ایڈورڈ سنوڈن نے، جس نے روس میں پناہ لے رکھی ہے، اپنی دستاویزوں میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی انٹلی جنس اداروں نے صرف 30 دن کے عرصے میں جو معلومات جمع کی ہیں، ان کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے یہ سوال اُٹھایا کہ آیا اُن کے سیل فون پر اُن کی ذاتی گُفتگُو بھی ٹیپ کی جاتی رہی ہے۔
سنوڈن کی دستاو یزوں کے مطابق، امریکی جاسوسی ادارے 35 ایسے ملکوں میں اعلیٰ سطح پر کاروائی کرتے آئے ہیں، جو امریکہ کے اتّحادی مانے جاتے ہیں اور مس مرکل کو اصرار تھا کہ اتحادیوں کے درمیان اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ اعتماد اب نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا، جب کہ صدر اوباما کے ترجمانوں نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کی ہے کہ ہر ملک دوسرے کی جاسوسی کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یورپی ممالک کو تسلیم ہے کہ جاسوسی وہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن، اُنہیں اصرار ہے کہ امریکہ حد سے تجاوز کرگیا ہے، خود ڈیوڈ ہارسی کا کہنا ہے کہ شائد امریکہ کی جاسوسی کرنے کی اہلیت اتنی زیادہ اچھی ہے، جس کے لئے وہ اپنے اعلیٰ فنیاتی آلے استعمال کرتا ہے۔ یورپی ممالک اس پر رشک کرتے ہیں کہ ان کی فنیاتی سطح اتنی بلند نہیں، اور پھر یہ بھی ہے کہ اُن کے پاس کوئی سنوڈن بھی نہیں جو ان کے راز افشا کرے۔
اخبار کہتا ہے کہ جب عراقی صدر نوری المالکی جمعےکو صدر اوباما سے ملاقات کریں گے، تو دونوں لیڈروں پر اِس بات پر اصرار کرنا لازم ہے کہ عراقی مذہبی شخصیات اقتدار کے حصول کے لئے مسابقت بند کریں، جس کی وجہ سے اِس تشدّد کو ہوا مل رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سال وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری غالباً القاعدہ سے وابستہ تنظیموں پر آتی ہے، جسے عراق کی اقلیت یعنی سنیوں کی پھر سے حمائت حاصل ہوگئی ہے، کیونکہ اُنہیں مسٹر مالکی کی شیعہ قیادت میں قائم مرکزی حکومت کے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم پر غصّہ ہے۔
دو سال قبل، امریکی فوجوں کی عراق واپسی کے بعد مسٹر مالکی نے مقامی قبائیلی لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کامیاب امریکی حکمت عملی پر عمل درآمد بند کر دیا ہے، جس کی بدولت شیعہ سنّی تناؤ پر قابو پایا جاتا تھا۔ بلکہ، مسٹر مالکی نے تمام اقتدار اپنے ہاتھ میں یا اپنی شیعہ نواز پارٹی کے ہاتھ میں دے رکھا ہے۔ اور اس طرح، انہوں نے منتخب سنّی لیڈروں کی دشمنی مول لی ہے۔چنانچہ، اس نئے تناؤ سے تشدّد کو ہوا لگی ہے اور اُن کوششوں کو نقصان پہنچا ہے، جو سنہ 2003 میں امریکی حملے کے بعد قومی یگانگت کو فروغ دینے کے لئے شروع کی گئی تھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انتخابات کی بدولت، عراق کا مستقبل ابھی بھی سُدھر سکتا ہے، بشرطیکہ ملک کے سُنّی اور شیعہ لیڈر، سیاست میں دخل اندازی کرنا بند کریں، جس کی بہترین مثال آئت اللہ علی سیستانی کی شخصیت ہے، جو ایرانی شیعہ علما کے ساتھ اپنے مذہبی تعلّقات کے باوجود، ایران کی اُس طرز حکومت کے خلاف ہیں، جہاں ایک سیکیولر حکومت پر ملّاؤوں کا تصرّف ہے۔ اُنہوں نے حال ہی میں بعض شیعہ اور سنّی لیڈروں کے ساتھ مل کر مصالحت کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی فرقہ دوسرے فرقے پر نہ تو اہانت کا الزام لگائے گا اور نہ اُسے اپنا دشمن سمجھے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ عراق میں اوسطاً 18 افراد روزانہ مذہبی تشدّد کی بھینٹ چڑھتے ہیں، اور عراقی اپنی جانی حفاظت اور جمہوریت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ مسٹر مالکی نے سنہ 2006 میں صدر بننےکے بعد، فرقہ واریت کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا ہے، اور اب جب وہ فوجی امداد کے حصول کے لئے واشنگٹن آئیں گے، تو یہ ان کو یہ یاد دلانے کا اچھا موقع ہوگا کہ وہ اپنی راہ درست کریں۔
امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی سمندر پار ملکوں میں جاسوسی کی سرگرمیوں پر ’بالٹی مور سن‘ اخبار میں ڈیوڈ ہارسی رقمطراز ہیں کہ اس ہفتے صدر اوباما کو یورپی لیڈروں کی طرف سے فون پہ فون آتے رہے۔ پہلا فون فرانس کے صدر فرانسواں اولاں کا تھا، جنہوں نے شکائت کی کہ اس ایجنسی کے سابق کارندے ایڈورڈ سنوڈن نے، جس نے روس میں پناہ لے رکھی ہے، اپنی دستاویزوں میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی انٹلی جنس اداروں نے صرف 30 دن کے عرصے میں جو معلومات جمع کی ہیں، ان کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے یہ سوال اُٹھایا کہ آیا اُن کے سیل فون پر اُن کی ذاتی گُفتگُو بھی ٹیپ کی جاتی رہی ہے۔
سنوڈن کی دستاو یزوں کے مطابق، امریکی جاسوسی ادارے 35 ایسے ملکوں میں اعلیٰ سطح پر کاروائی کرتے آئے ہیں، جو امریکہ کے اتّحادی مانے جاتے ہیں اور مس مرکل کو اصرار تھا کہ اتحادیوں کے درمیان اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ اعتماد اب نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا، جب کہ صدر اوباما کے ترجمانوں نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کی ہے کہ ہر ملک دوسرے کی جاسوسی کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یورپی ممالک کو تسلیم ہے کہ جاسوسی وہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن، اُنہیں اصرار ہے کہ امریکہ حد سے تجاوز کرگیا ہے، خود ڈیوڈ ہارسی کا کہنا ہے کہ شائد امریکہ کی جاسوسی کرنے کی اہلیت اتنی زیادہ اچھی ہے، جس کے لئے وہ اپنے اعلیٰ فنیاتی آلے استعمال کرتا ہے۔ یورپی ممالک اس پر رشک کرتے ہیں کہ ان کی فنیاتی سطح اتنی بلند نہیں، اور پھر یہ بھی ہے کہ اُن کے پاس کوئی سنوڈن بھی نہیں جو ان کے راز افشا کرے۔