شام میں امکانی فوجی کاروائی کے سلسلے میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے تناظر میں اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے ماہرین زہریلی گیس سے کئے گئے حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، جس میں دمشق کے نواحی علاقوں میں، جن پر باغیوں کا قبضہ ہے، سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اور، ’شکاگو ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کےمطابق، ماہرین کے اس وفد نے متاثّرہ علاقوں کا دوسری بار دورہ کیا ہے، تاکہ متاثرہ افراد کے زخموں کی نوعیت کے نمونے حاصل کر سکیں، اور سکرٹری جنرل بن کی مون نے اُن کی طرف سے اپیل کی ہے کہ انہیں اپنا کام پورا کرنے کے لئے مزید چار روز کی مہلت دی جائے۔
رپورٹ میں، اقوام متحدہ کے ایک عہدہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بعض مغربی حکومتوں کے ساتھ کُچھ تناؤ پیدا ہوگیا ہے جنہیں انسپکٹروں کی رپورٹ کا انتظار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی اور مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں نے زہریلی گیس کے حملے کا الزام صدر بشار الاسد کی فوجوں پر عائد کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، قطع نظر اس امر کے کہ روس اقوام متحدہ کی طرف سے منظوری میں روڑے اٹکاتا ہے، شام پر امریکی قیادت میں فضائی حملہ ایک یقینی امر ہے، گو اس کے وقت کا تعیّن ابھی یقینی نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے مغربی طاقتیں اب ماسکو کے ساتھ ٹکراؤ کی راہ پر ہیں، جہاں سے صدر اسد کو اسلحے کی سب سے زیادہ رسد آتی ہے۔ چین کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت حال ہے جس کے پاس بھی سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار ہے۔ اور جو اس بات کی کڑی تنقید کرتا آیا ہے کہ، بقول اُس کے، شام میں بھی عراق کے طرز پر حکومت بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، باوجودیکہ امریکہ اس کی بار بار تردید کر چُکا ہے۔
شام کے ایک وزیر نے دمشق میں اس ہوٹل میں آکر جہاں اقوام متحدہ کا وفد مقیم ہے، کُچھ شواہد پیش کئے ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بُدھ کے روز سرین گیس کا استعمال باغی دہشت گرد تنظیموں نے کیا تھا اور اس میں انہیں امریکہ برطانیہ اور فرانس کی حمائت حاصل تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ شامی دارالحکومت میں لوگ متوقع بمباری کی تیاری میں پانی اور دوسری اشیائے ضروری ذخیرہ کر رہے ہیں۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مغرب کی طرف سے کسی قسم کی کاراوائی کا اُس وقت تک امکان نہیں ہے جب تک اقوام متحدہ کے ماہرین شام میں موجود ہیں۔ بن کی مون کہتے ہیں کہ یہ لوگ نہائت ہی خطرناک حالات میں بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔
اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ نے شام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائیندے لخدر براہیمی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب تک کے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی قسم کا کیمیائی مواد ضرُور استعمال کیا گیا ہے، جس میں سینکڑوں افراد کی جانیں گئیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ اگر کوئی فوجی کاروائی کرنی ہے، تو اس کے لئے اقوام متحدہ کی منظوری حاصل کرنا ضرور ی ہوگا۔
ادھر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی اطلاع ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے عہدہ داروں کا خیال ہے کہ شامی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال کے بعد، جوابی کاروائی فوری طور پر ہونی چاہئیے۔ وگرنہ، شام کی حکومت ان ہتھیاروں کا استعمال شام کے سب سے بڑے شہر حلب پر کرے گی جس پر اس وقت باغیوں کا قبضہ ہے۔
انتظامیہ کے ایک عہدہ دار کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ حلب کا شہر غالباً اُن ٹھکانوں میں سے ایک ہوگا جن کو شامی حکومت نشانہ بنائے گی۔ اخبار کہتا ہے کہ حلب کے بارے میں یہ تشویش ایک وجہ ہے جس کی بنا پر فوری جوابی کاروائی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور اغلب یہی ہے کہ یہ کاروائی شام کی فضائی حدود سے باہر سے کی جائےگی۔
اور، ’شکاگو ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کےمطابق، ماہرین کے اس وفد نے متاثّرہ علاقوں کا دوسری بار دورہ کیا ہے، تاکہ متاثرہ افراد کے زخموں کی نوعیت کے نمونے حاصل کر سکیں، اور سکرٹری جنرل بن کی مون نے اُن کی طرف سے اپیل کی ہے کہ انہیں اپنا کام پورا کرنے کے لئے مزید چار روز کی مہلت دی جائے۔
رپورٹ میں، اقوام متحدہ کے ایک عہدہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بعض مغربی حکومتوں کے ساتھ کُچھ تناؤ پیدا ہوگیا ہے جنہیں انسپکٹروں کی رپورٹ کا انتظار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی اور مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں نے زہریلی گیس کے حملے کا الزام صدر بشار الاسد کی فوجوں پر عائد کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، قطع نظر اس امر کے کہ روس اقوام متحدہ کی طرف سے منظوری میں روڑے اٹکاتا ہے، شام پر امریکی قیادت میں فضائی حملہ ایک یقینی امر ہے، گو اس کے وقت کا تعیّن ابھی یقینی نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے مغربی طاقتیں اب ماسکو کے ساتھ ٹکراؤ کی راہ پر ہیں، جہاں سے صدر اسد کو اسلحے کی سب سے زیادہ رسد آتی ہے۔ چین کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت حال ہے جس کے پاس بھی سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار ہے۔ اور جو اس بات کی کڑی تنقید کرتا آیا ہے کہ، بقول اُس کے، شام میں بھی عراق کے طرز پر حکومت بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، باوجودیکہ امریکہ اس کی بار بار تردید کر چُکا ہے۔
شام کے ایک وزیر نے دمشق میں اس ہوٹل میں آکر جہاں اقوام متحدہ کا وفد مقیم ہے، کُچھ شواہد پیش کئے ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بُدھ کے روز سرین گیس کا استعمال باغی دہشت گرد تنظیموں نے کیا تھا اور اس میں انہیں امریکہ برطانیہ اور فرانس کی حمائت حاصل تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ شامی دارالحکومت میں لوگ متوقع بمباری کی تیاری میں پانی اور دوسری اشیائے ضروری ذخیرہ کر رہے ہیں۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مغرب کی طرف سے کسی قسم کی کاراوائی کا اُس وقت تک امکان نہیں ہے جب تک اقوام متحدہ کے ماہرین شام میں موجود ہیں۔ بن کی مون کہتے ہیں کہ یہ لوگ نہائت ہی خطرناک حالات میں بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔
اخبار ’میامی ہیرلڈ‘ نے شام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائیندے لخدر براہیمی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب تک کے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی قسم کا کیمیائی مواد ضرُور استعمال کیا گیا ہے، جس میں سینکڑوں افراد کی جانیں گئیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ اگر کوئی فوجی کاروائی کرنی ہے، تو اس کے لئے اقوام متحدہ کی منظوری حاصل کرنا ضرور ی ہوگا۔
ادھر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی اطلاع ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے عہدہ داروں کا خیال ہے کہ شامی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبیّنہ استعمال کے بعد، جوابی کاروائی فوری طور پر ہونی چاہئیے۔ وگرنہ، شام کی حکومت ان ہتھیاروں کا استعمال شام کے سب سے بڑے شہر حلب پر کرے گی جس پر اس وقت باغیوں کا قبضہ ہے۔
انتظامیہ کے ایک عہدہ دار کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ حلب کا شہر غالباً اُن ٹھکانوں میں سے ایک ہوگا جن کو شامی حکومت نشانہ بنائے گی۔ اخبار کہتا ہے کہ حلب کے بارے میں یہ تشویش ایک وجہ ہے جس کی بنا پر فوری جوابی کاروائی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور اغلب یہی ہے کہ یہ کاروائی شام کی فضائی حدود سے باہر سے کی جائےگی۔