پاکستان کی رواں انتخابی مہم کے بارے میں ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، عسکریت پسند بم پھوڑ کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اور حالیہ ہفتوں میں اِس سیاسی تشدّد میں اُن سیکیولر پارٹیوں کے کم از کم ساٹھ افراد ہلاک کئے جا چکے ہیں جو طالبان کے خلاف ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس کی وجہ سے تشویش بڑھ رہی ہے کہ اِس سے اسلام پسند پارٹیاں فائدہ اُٹھائیں گی، جِن کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں، کیونکہ وہ بغیر کسی پریشانی کے اور کسی حملے کے ڈر کے اپنی مہم چلا رہی ہیں۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان، احسان اللہ احسان نے کسی نامعلوم جگہ سے ایسو سی ایٹد پریس کو ٹیلیفوں کرکے خیبر پختوں خواہ اور کراچی کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اُن تمام سیاست دانوں کے خلاف ہیں جو سیکیولر او ر جمہوری حکومت کا حصّہ بنیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے سالہا سال سے حکومت کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ اور مارچ کے وسط میں اُنہوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ تین سیکیولر پارٹیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائیں گے جنہوں نے طالبان کے خلاف فوجی اوپریشن کی حمائت کی تھی۔ إِن پارٹیوں کو اپنے درجنوں انتخابی دفاتر بند کرنا پڑے ہیں، اور انتخابی جلسے جلوس منسوخ کرنے پڑے ہیں، جو پاکستان میں انتخابی مہم کا خاصہ ہوتے ہیں۔ وہ ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے دوسرے ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مثلاً سوشیل میڈیا کی وساطت سے اشتہار ات یا ڈاکیُو منٹریز پر۔ اِس طرح، یہ امیدوار دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو گھاٹے میں محسوس کرتے ہیں۔ اور اُن میں سے بہت سُوں نے شکائت کی ہے کہ عسکریت پسندوں کا تشدُد انتخابات میں دھاندلی کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف اسلام پسند اور دوسری پارٹیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی کر نے سے بہتر ہے کہ اُن سے مذاکرات کئے جائیں۔
اِس طرح، وُہ کسی حملے کے خوف کے بغیر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ اس سال کے اوائیل میں طالبان نے ایک بیان جاری کر کے مسلم لیگ ن اوردو بڑی اسلامی پارٹیوں سے درخواست کی تھی کہ وُہ امن مذاکرات میں ثالثی کریں۔ میاں نواز شریف نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ لیکن کہاتھا کہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں۔جن پارٹیوں کو طالبان نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے وہ بھی امن مذاکرات کی حامی ہیں ، لیکن اس شرط پر کہ پہلے طالبان اپنے ہتھیار ڈال دیں ۔ لیکن، طالبان نے یہ شرط ردّ کر دی ہے۔
اُدھر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ افغانستان کے طالبان نے موسم بہار کے روائتی حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ اور اس کے لئے اُنہوں نے ایسی گھڑی چُنی ہے جب امریکی فوج اُس ملک میں لڑائی میں شرکت کی ذمّہ داریاں ختم کرتی جارہی ہیں، اور سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان حکومت کو سونپی جا رہی ہیں۔اس اسلام پسند جماعت نے، جسے سنہ 2001 میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، دھمکی دی ہے کہ وُہ وسیع پیمانے پر خود کُش بمباروں کے نئے حملوں کے علاوہ افغان فوج کے اندر سے حملوں کا بھی آغاز کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ نئی دہمکی ایک ایسے وقت دی جا رہی ہے،جب حالیہ مہینوں میں ایسے حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
نیٹو کی قیادت میں اتحادیوں کی بین الاقوامی فوج نے ، جس میں امریکہ کے 66 ہزار فوجی شامل ہیں، طالبان کی دھمکی کے جواب میں کہا ہے کہ افغان عوام کو ان دھمکیوں مرعوب نہیں ہونا چاہئیے۔اور کہا ہے کہ افغان سیکیورٹی افواج نے موسم سرما کے دوران سیکیورٹی کے فرائض روان سال کے وسط تک خود سنبھالنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ اور وہ بالکل تیار ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس کی وجہ سے تشویش بڑھ رہی ہے کہ اِس سے اسلام پسند پارٹیاں فائدہ اُٹھائیں گی، جِن کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں، کیونکہ وہ بغیر کسی پریشانی کے اور کسی حملے کے ڈر کے اپنی مہم چلا رہی ہیں۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان، احسان اللہ احسان نے کسی نامعلوم جگہ سے ایسو سی ایٹد پریس کو ٹیلیفوں کرکے خیبر پختوں خواہ اور کراچی کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اُن تمام سیاست دانوں کے خلاف ہیں جو سیکیولر او ر جمہوری حکومت کا حصّہ بنیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے سالہا سال سے حکومت کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ اور مارچ کے وسط میں اُنہوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ تین سیکیولر پارٹیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائیں گے جنہوں نے طالبان کے خلاف فوجی اوپریشن کی حمائت کی تھی۔ إِن پارٹیوں کو اپنے درجنوں انتخابی دفاتر بند کرنا پڑے ہیں، اور انتخابی جلسے جلوس منسوخ کرنے پڑے ہیں، جو پاکستان میں انتخابی مہم کا خاصہ ہوتے ہیں۔ وہ ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے دوسرے ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مثلاً سوشیل میڈیا کی وساطت سے اشتہار ات یا ڈاکیُو منٹریز پر۔ اِس طرح، یہ امیدوار دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو گھاٹے میں محسوس کرتے ہیں۔ اور اُن میں سے بہت سُوں نے شکائت کی ہے کہ عسکریت پسندوں کا تشدُد انتخابات میں دھاندلی کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف اسلام پسند اور دوسری پارٹیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی کر نے سے بہتر ہے کہ اُن سے مذاکرات کئے جائیں۔
اِس طرح، وُہ کسی حملے کے خوف کے بغیر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ اس سال کے اوائیل میں طالبان نے ایک بیان جاری کر کے مسلم لیگ ن اوردو بڑی اسلامی پارٹیوں سے درخواست کی تھی کہ وُہ امن مذاکرات میں ثالثی کریں۔ میاں نواز شریف نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ لیکن کہاتھا کہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں۔جن پارٹیوں کو طالبان نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے وہ بھی امن مذاکرات کی حامی ہیں ، لیکن اس شرط پر کہ پہلے طالبان اپنے ہتھیار ڈال دیں ۔ لیکن، طالبان نے یہ شرط ردّ کر دی ہے۔
اُدھر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ افغانستان کے طالبان نے موسم بہار کے روائتی حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ اور اس کے لئے اُنہوں نے ایسی گھڑی چُنی ہے جب امریکی فوج اُس ملک میں لڑائی میں شرکت کی ذمّہ داریاں ختم کرتی جارہی ہیں، اور سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان حکومت کو سونپی جا رہی ہیں۔اس اسلام پسند جماعت نے، جسے سنہ 2001 میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، دھمکی دی ہے کہ وُہ وسیع پیمانے پر خود کُش بمباروں کے نئے حملوں کے علاوہ افغان فوج کے اندر سے حملوں کا بھی آغاز کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ نئی دہمکی ایک ایسے وقت دی جا رہی ہے،جب حالیہ مہینوں میں ایسے حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
نیٹو کی قیادت میں اتحادیوں کی بین الاقوامی فوج نے ، جس میں امریکہ کے 66 ہزار فوجی شامل ہیں، طالبان کی دھمکی کے جواب میں کہا ہے کہ افغان عوام کو ان دھمکیوں مرعوب نہیں ہونا چاہئیے۔اور کہا ہے کہ افغان سیکیورٹی افواج نے موسم سرما کے دوران سیکیورٹی کے فرائض روان سال کے وسط تک خود سنبھالنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ اور وہ بالکل تیار ہیں۔