روس اور امریکہ نے منگل کے روز کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے 1987ء کے جوہری ہتھیاروں کے معاہدے سے نکلنے کے ارادے پر ہونے والی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی، چونکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ روس سمجھوتے کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
روس میں حکومت کی زیرِ نگرانی کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ’تاس‘ نے روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ’’مجموعی طور پر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ امریکہ کی جانب سے کسی بات پر رضامند نہ ہونے اور ضد پر مبنی مطالبوں کے نتیجے میں بات چیت رک گئی ہے‘‘۔
اُنھوں نے جنیوا میں امریکہ کے بین القوامی سیکورٹی اور ہتھیاروں کی روک تھام کے معاون وزیر خارجہ آندرے تھومپسن سے مذاکرات کے بعد یہ بات کہی ہے۔
امریکہ نے اجلاس کو ’’مایوس کُن‘‘ قرار دیا۔
تین عشرے پرانے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری اسلحے کے سمجھوتے کے تحت زمین پر نصب ’کروز‘ اور ’بیلسٹک‘ میزائلوں کی تیاری، تجربہ اور تعیناتی پر بندش عائد ہے، جو 500 سے 5500 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روسی خلاف ورزیوں کے باعث امریکہ دو فروری کو معاہدے سے علیحدہ ہوجائے گا۔
ریابکوف نے توجیہ پیش کی ہے کہ’’(معاہدے کے ممکنہ خاتمے) کی ذمہ داری مکمل طور پر اور پوری کی پوری امریکہ پر عائد ہوگی‘‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’دونوں فریق کسی نتیجے پر پہچنے میں ناکام رہے اور یہ کہ اس ضمن میں امریکہ مزید مذاکرات کی خواہش نہیں رکھتا‘‘۔
امریکہ نے مطالبہ کیا ہے کہ روس وہ میزائل تلف کردے جن کے لیے امریکہ کا دعویٰ ہے کہ ان سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ریابکوف نے کہا کہ روس نے مزید مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ لیکن، امریکہ کی جانب سے اس پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ریابکوف نے کہا کہ ’’ہم مساوات اور باہمی عزت کی بنیاد پر(اور) الٹیمیٹم دیے بغیر مکالمے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
ریابکوف نے کہا کہ بات چیت کی صورت حال کے بارے میں روس جمعے کے روز یورپی سفارتکاروں کو بریف کرنے پر تیار ہے۔
گذشتہ ماہ روسی صدر ولادمیر پوٹن نے کہا تھا کہ معاہدے کے خاتمے کی صورت میں اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہونے کا خطرہ لاحق ہو گا۔ پوٹن نے مشورہ دیا تھا کہ وہ دیگر ملکوں کی جانب سے ’آئی این ایف ‘معاہدے میں شامل ہونے یا نئے سمجھوتے کے لیے مذاکرات کرنے میں شرکت پر تیار ہے۔