رسائی کے لنکس

لشکر طیبہ اور القاعدہ کی معاونت کرنے پر تین افراد پر پابندی


امریکہ کے محکمہ خزانہ کی عمارت (فائل)
امریکہ کے محکمہ خزانہ کی عمارت (فائل)

امریکہ کی محکمۂ خزانہ کے ایک بیان کے مطابق رحمان زیب فقیر محمد، حزب اللہ استم خان اور دلاور خان نادر خان پر شدت پسند تنظیم القاعدہ اور لشکر طیبہ کو مبینہ طور پر معاونت فراہم پر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔

امریکہ نے تین پاکستانی افراد کے نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

امریکہ کی محکمۂ خزانہ کے ایک بیان کے مطابق رحمان زیب فقیر محمد، حزب اللہ استم خان اور دلاور خان نادر خان پر شدت پسند تنظیم القاعدہ اور لشکر طیبہ کو مبینہ طور پر معاونت فراہم پر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق یہ اقدام جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

محکمۂ خزانہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں افراد کا تعلق شیخ امین اللہ سے بھی ہے جس پر 2009ء میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

محکمۂ خزانہ کے انڈر سیکرٹری برائے دہشت گردی اور فناشل انٹیلیجنس سیگل مینڈلکر نے کہا ہے کہ محکمۂ خزانہ ان شدت پسندوں کو بے نقاب کرنے کی بھرپور کوشش جاری رکھے گا جو جنوبی ایشیا میں غیر قانونی مالیاتی نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان کارندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہوں نے القاعدہ، لشکرِ طیبہ اور طالبان اور دیگر دہشت گروپوں کو ساز و سامان، دیسی ساختہ بم اور تکنیکی معاونت فراہم کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ (کارروائی) دہشت گردوں کو فنڈز کی فراہمی روکنے کے لیے انتظامیہ کی کوششوں کا حصہ ہے اور ہم پاکستانی حکومت اور خطے کے دیگر (ملکوں) پر زور دیں گے کہ وہ ان خطرناک افراد اور تنظیموں کو محفوظ ٹھکانے بنانے سے روکیں۔"

محکمۂ خزانہ کا کہنا ہے کہ رحمان زیب فقیر محمد پر لشکرِ طیبہ کو مالیاتی، تیکنیکی اور دیگر خدمات فراہم کرنے کی بنا پر پر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔

بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ رحمان زیب لشکر طیبہ کا ایک کارندہ ہے جو کئی برسوں تک خلیج کے ملکوں میں لشکر طیبہ کا نیٹ ورک چلاتا رہا اور اس شدت پسند تنظیم کے لیے فنڈز جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث رہا۔

بیان کے مطابق حزب اللہ استم خان، شیخ امین اللہ کے لیے کام کرنے کی بنا پر عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

حزب اللہ 2016ء تک شیخ امین اللہ کے سہولت کار کے طور پر کام کرتا رہا اور وہ پشاور میں قائم ایک ایسے مدرسے کے عہدیدار کے طور پر بھی کام کرچکا ہے جس کا شریک بانی شیخ امین اللہ تھا۔ حزب اللہ ماضی میں افغانستان کے کنڑ صوبے میں دیسی ساختہ بم بنانے اور انہیں افغان اور کولیشن فورسز کو نشانے بنانے کے کام میں ملوث رہا ہے۔

دلاور خان کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ اسے بھی شیخ امین اللہ کے لیے کام کرنے کی بنا پر عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان کی طرف سے تاحال امریکہ کے اس اقدام کے بارے میں کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم پاکستان پہلے ہی لشکرِ طیبہ اور القاعدہ کو شدت پسند تنظیمیں قرار دے کر ان پر پانبدی عائد کر چکا ہے۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ کہ ملک میں ہر قسم کی شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستانی فوج کا 'امریکہ سے تعاون جاری رکھنے کا عزم'

دوسری پاکستانی فوج نے ملک کے قومی مفاد پر کوئی سمجھوتے کیے بغیر خطے کے امن و استحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

یہ بیان پاکستان فوج کی صدر دفتر راولپنڈی میں بدھ کو فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کے ایک اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے۔

تاہم بیان میں کہا گیا ہے کہ علاقائی استحکام کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے قومی مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔

پاکستان فوج کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ پاکستان سے ایسے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے جو مبینہ طور پر امریکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکہ نے پاکستان کی سکیورٹی امداد بھی معطل کر دی ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کے کوئی آثار نطر نہیں آرہے ہیں۔

"امریکی (انتظامیہ) کی سوچ تھی کہ جب وہ پاکستان پر پابندیاں عائد کریں گے تو پاکستان ان کی خواہش کے مطابق عمل کرے گا۔ لیکن مین سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان کا امریکہ پر فوجی سازو سامان کے لیے انحصار بہت کم ہو گیا ہے اور اس لیے اس امداد کی معطلی کے باوجود پاکستان پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کو ایک دوسرے کے مشترکہ مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک درمیانی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کا تعاون نہایت ضروری ہے اور ان کے بقول اس کا حصول اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی اعتماد سے ہی ممکن ہے۔

XS
SM
MD
LG