اوباما انتظامیہ نے شیعہ عالم کو سزائے موت دیے جانے کے ممکنہ نتائج برآمد ہونے کے بارے میں سعودی عرب کے حکام کو متنبہ کیا گیا تھا، جس کی موت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی جب کہ عالمی سطح پر احتجاج دیکھا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے پیر کے روز اخباری بریفنگ کے دوران کہا کہ کھلے عام سزائے موت، خاص طور پر، نمر النمر کی سزا پر عمل درآمد کے معاملے پر، ’امریکہ سعودی حکام سے براہ راست اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’یہ تشویش کا وہ معاملہ ہے جسے ہم نے سعودی حکام سے پیشگی طور پر اٹھایا تھا۔ لیکن، بدقسمتی سے، سعودیوں سے تشویش کا اظہار بے کار گیا، اور وہی ہوا جس بات کا ہمیں ڈر تھا‘۔
ادھر، امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے وائٹ ہاؤس کے بیان کی بازگشت دہراتے ہوئے کہا کہ، ’ہمیں خاصل طور پر اُس (النمر) کی سزائے موت پر تشویش ہے، جس سے فرقہ وارانہ تناؤ بڑھا، ایسے وقت جب اِن جذبات کو کم کرنے کی فوری ضرورت ہے‘۔
عالمی ردِ عمل
النمر کی سزائے موت پر شیعہ برادری نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے، جو سعودی عرب کے حکمراں شاہی خاندان کے معروف ناقد تھے، اور سنہ 2011 سے مشرقی سعودی عرب میں شیعہ مظاہریں کے اہم رہنما تھے۔ اُنھیں سنہ 2014میں بغاوت اور دیگر الزامات کے ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی، اور وہ اُن 47 افراد میں شامل تھے جنھیں ہفتے کو سعودی عرب میں سزائے موت دی گئی۔
جوں ہی یہ خبر پھیلی، تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارت خانے کو نذر آتش کیا، جس پر سنی بادشاہت نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے، جو خطے میں اُس کا شیعہ مخالف ہے۔
ارنیسٹ نے ایران کی جانب سے سعودی سفارتی تنصیب کے تحفظ میں غفلت پر اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا۔ اِن حملوں کے بعد، کم از کم 40 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، جنھیں ایرانی صدر حسن روحانی نے ’مکمل طور پر ناقابلِ قبول‘ قرار دیا۔ تاہم، اُنھوں نے النمر کی سزائے موت کی بھی مذمت کی۔