امریکہ نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ دسمبر میں بیلسٹک میزائل اور دو سیٹلائٹ تجربات کرکے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔
اسلحے پر کنٹرول کے پروگرام پر مامور ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے منگل کے روز کہا ہے کہ ایران کا میزائل پروگرام مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث ہے اور لبنان اور یمن میں مسلح گروہوں کو ہتھیار فراہم کرکے وہ ’’خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ‘‘ کے خدشات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جب امریکہ 2015ء کے سنگ میل معاہدے سے الگ ہوا جس کی رو سے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے عوض بین الاقوامی تعزیرات اٹھالی گئی تھیں، جب کہ سمجھوتے سے ایران کے میزائل پروگرام ترک کرنے یا علاقائی معاملات میں مداخلت روکنے میں مدد نہیں ملی۔
امریکہ نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ دسمبر میں بیلسٹک میزائل اور دو سیٹلائٹ تجربات کرکے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تخفیف اسلحہ کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے، ہتھیاروں پر کنٹرول کی معاون ریاستی وزیر، یلم پبلٹ نے کہا ہے کہ ’’ایران کا میزائل پروگرام تناؤ میں اضافے اور خطے کے عدم استحکام کا باعث ہے، جب کہ اس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی علاقائی دوڑ کا خدشہ بڑھانے کا موجب بن رہا ہے‘‘۔
یمن میں حوثی تحریک سے لے کر لبنان میں حزب اللہ کی حمایت کرنے پر اُنھوں نے ایران کی مذمت کی۔ بقول اُن کے، ’’ایران کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر بیلسٹک میزائل سے تعلق رکھنے والی سرگرمیاں بند کرے، جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسے چاہیئے کہ وہ میزائل کے پھیلاؤ کو ترک کرے اور دہشت گرد گروہوں اور غیر ریاستی عناصر کو میزائل ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے اجتناب کرے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران نے حوثیوں کو بیلسٹک میزائل فراہم کیے ہیں جن سے سعودی عرب کو نشانہ بنایا گیا؛ جب کہ حوثی گروہوں کو بغیر پائلٹ کے فضائی نظام حوالے کیے گئے ہیں جن کی مدد سے وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں زمینی اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
بقول اُن کے، ’’ہم پُرعزم ہیں کہ ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے پھیلاؤ اور ہتھیاروں کی غیر قانونی منتقلی کا سختی سے مقابلہ کریں‘‘۔
یلم پبلٹ نے’’تمام ذمہ دار ملکوں‘‘ پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کریں، جس سے ایران کی میزائل سے تعلق رکھنے والی ٹیکنالوجی کی منتقلی محدود کی جا سکے۔
اُنھوں نے الزام لگایا کہ اپنے ’’مجرمانہ مقاصد کے حصول کے لیے‘‘ ایران ادویات کے مرکبات کا استعمال کر رہا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
ایران کے ایک سفارت کار نے اپنے جوابی کلمات میں اُن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے، الزامات کو ’’سستی شہرت کے حامل، غیر پیشہ وارانہ، جھوٹے، غیر متعلقہ اور افسوس ناک‘‘ قرار دیا۔ اُنھوں نے جنیوا کے اجلاس کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کا الزام لگایا۔
بقول اُن کے، ’’ہم سب کو واقعی امریکی نمائندے کی بدتمیزی کے بارے میں فکر ہونا چاہیئے، ایسے میں جب وہ تشدد کی راہ پر نہ چل پڑیں، چونکہ اُن کے پاس بات کرنے اور سننے کے انسانی انداز کا فقدان ہے، جس رویے کی ہم عام طور پر پاسداری کرتے ہیں‘‘۔