امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے بھارت کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا سے دو طرفہ دلچسپی کے امور، خطے کی صورتِ حال اور خاص طور پر افغانستان کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
وینڈی شرمن اس وقت بھارت کے دو روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔ انہوں نے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے بھی ملاقات کی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات کے دوران افغانستان کا معاملہ سرفہرست رہا۔ ہرش شرنگلا نے افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کے بڑھتے کردار اور وہاں سے دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے سلسلے میں بھارت کی تشویش سے انہیں آگاہ کیا جب کہ وینڈی شرمن نے بھارت کی روس سے ایس۔400 میزائل نظام کے حصول پر تشویش کا اظہار کیا۔
امریکہ کا طالبان پر وعدوں پر عمل پر زور
وینڈی شرمن نے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان معاہدے میں کیے گئے وعدے پورے کریں اور انہیں ایک جامع اور نمائندہ حکومت قائم کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نہ صرف بھارت، بلکہ پورے خطے کو لاحق دہشت گردی کے خطرے پر نئی دہلی کی تشویش سے آگاہ ہے۔ ان کے بقول نئی دہلی انسدادِ دہشت گردی میں امریکہ کا شراکت دار ہے۔ بھارت کی سلامتی واشنگٹن کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ افعانستان کے سلسلے میں دونوں ملکوں کی سوچ یکساں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ افغانستان سے شہریوں کے انخلا کے سلسلے میں بھارت اور دیگر ممالک سے رابطے میں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ جائزہ لے رہا ہے کہ اس مسئلے پر طالبان سے کیسے بات چیت کی جائے۔
امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ کے مطابق امریکہ اور بھارت دونوں کو افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے یا قانونی حیثیت دینے کی جلدی نہیں ہے۔
نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے امریکہ بھارت شراکت داری کو دونوں ممالک اور دنیا کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
روس سے میزائل نظام کے حصول پر گفتگو
انہوں نے بھارت کے روس سے ایس۔400 میزائل نظام کی خریداری سے اختلاف کیا اور اسے سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے ایس۔400 نظام کی خریداری پر ممکنہ پابندیوں کے تناظر میں اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک مذاکرات سے اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ نظام کی خریداری کے سلسلے میں امریکہ کا مؤقف دنیا کو معلوم ہے۔ یہ خطرناک ہے اور کسی کی بھی سلامتی کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کے اس بیان سے ایک روز قبل بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل وی آر چوہدری نے تصدیق کی تھی کہ 2018 میں پانچ ارب 43 کروڑ ڈالر کے جس سودے پر دستخط ہوئے تھے وہ برقرار ہے۔ اس کی پہلی کھیپ رواں برس فضائیہ میں شامل ہو سکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق مذکورہ میزائل نظام کی پہلی کھیپ رواں ماہ بھارت پہنچنے والی ہے۔
مبصرین کے مطابق کوئی ملک اگر روس سے مذکورہ میزائل نظام خریدتا ہے تو امریکہ کے قانون سی اے اے ٹی ایس اے (کاٹسا) کے تحت اس پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔
امریکہ نے اسی قانون کے تحت ترکی اور چین پر پابندی عائد کی ہے۔
امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ پابندی کے سلسلے میں کوئی فیصلہ صدر جو بائیڈن اور وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن ہی کر سکتے ہیں۔
خطے کی صورتِ حال ایجنڈے میں سرفہرست
امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے حوالے سے بھارت کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا کا کہنا تھا کہ انڈو پیسفک خطے کا مستقبل اور افغانستان کی صورتِ حال ایجنڈے میں سرفہرست تھی۔
ان کے مطابق جنوبی ایشیا اور بالخصوص افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر دونوں ممالک افغانستان کے مستقبل پر بات چیت کرتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کی توجہ اس پر بھی رہے گی کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کیسے قائم کیا جائے۔
بھارت کے طالبان کی حکومت کے حوالے سے خدشات
امریکہ اور بھارت کے اعلیٰ سفارت کاروں کی ملاقات پر بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر طالبان نے معاہدے میں کیے جانے والے وعدے پورے نہیں کیے تو بھارت کو افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اگر حکومت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور حقانی نیٹ ورک کو کنٹرول میں رکھتے ہیں تو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر طالبان اپنے وعدے پورے نہیں کرتے تو افغانستان میں پھر خانہ جنگی کا اندیشہ ہو گا اور داعش خراسان حکومت پر قابض ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق اگر حقانی نیٹ ورک کچھ گڑبڑ کرتا ہے تو عالمی برادری اقدامات کرے گی۔ لیکن یہ بھی سوال ہے کہ اگر وہاں طالبان حکومت نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان ذمہ داری سے کام کریں اور انسانی حقوق کا تحفظ کریں۔ ایک جامع اور نمائندہ حکومت بنائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو استحکام نہیں آ سکتا۔
’روس سے معاملہ صرف میزائل نظام کی خریداری کا نہیں ہے‘
بھارت کے روس سے ایس۔400 میزائل نظام کی خریداری کے سلسلے میں تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا کہ یہ صرف ہتھیاروں کی درآمد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ روس کے ساتھ بھارت کے رشتوں کی آزمائش کا بھی معاملہ ہے۔
ان کے خیال میں ایسی صورت میں جب کہ افغانستان سے امریکہ کی افواج کا انخلا ہو چکا ہے روس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ بھارت روس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ وسطی ایشیا میں بھی الگ تھلگ ہو جائے گا اور مغربی ایشیا میں اس کے اثرات پر بھی منفی اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں روس سے میزائل نظام خریدنے کا فیصلہ بہت اہم ہے۔ بھارت کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنی نازک پوزیشن امریکہ کو سمجھائے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملک اس مسئلے کو مذاکرات کی مدد سے حل کر لیں گے۔ کیوں کہ امریکہ کو خطے میں بھارت جیسے بڑے ملک کی حمایت چاہیے اور بھارت کو امریکہ جیسی مارکیٹ چاہیے۔
ان کے بقول دونوں ممالک کے تجارتی رشتے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جب چین اور امریکہ کے رشتوں میں کشیدگی ہے تو بھارت ہی ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں اپنے تجارتی مفادات کے ساتھ ساتھ امریکہ کے تجارتی مفادات کو بھی آگے بڑھا سکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق آئندہ ہفتے دونوں ممالک میں مختلف سطح پر مذاکرات ہونے والے ہیں جن میں ڈیفنس پالیسی ڈائیلاگ، انسداد دہشت گردی سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس اور وزرائے خارجہ و وزرائے دفاع کے مابین مذاکرات شامل ہیں۔