امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر روس نے درمیانے درجے کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ روکی تو وہ چھ ماہ میں معاہدے سے الگ ہوجائے گا۔
امریکہ اور روس کے درمیان 1987ء میں طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں ملک یورپ میں کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائل نصب نہ کرنے کے پابند ہیں۔
امریکہ ایک عرصے سے روس پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا رہا ہے لیکن روس ایسے تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔
جمعے کو ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا کہ امریکہ ہفتہ، دو فروری کو ماسکو کو باضابطہ طور پر آگاہ کردے گا کہ وہ چھ ماہ بعد اس معاہدے سے الگ ہوجائے گا۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ روس کے پاس معاہدے پر مکمل اور قابلِ تصدیق عمل کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت ہے جس کے دوران اسے معاہدے سے متصادم اپنے میزائل، ان کے لانچرز اور متعلقہ آلات تلف کرنا ہوں گے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ اگر روس معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو امریکہ معاہدے سے دستبردار ہونے کے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاہدے سے نکلنے کے امریکی اعلان کا مقصد روس کو معاہدے پر عمل درآمد پر مجبور کرنا ہے لیکن اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان یورپ میں جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ بھی شروع ہوسکتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا روس پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا چکے ہیں اور یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے کسی نئے معاہدے پر بات چیت کرنی چاہیے جس کا دائرۂ کار بھی وسیع ہو اور جس میں دنیا کے دیگر ملکوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے۔
روسی حکام نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہر صورت معاہدے سے نکلنا چاہتا ہے تاکہ نئے میزائل تیار کرسکے اور اس مقصد کے لیے فرضی کہانیاں گڑھ رہا ہے۔
معاہدے سے دستبردار ہونے کے امریکی اعلان پر اپنے ردِ عمل میں کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس کو امریکہ کے اقدام پر افسوس ہے۔
ترجمان نے الزام عائد کیا کہ امریکی حکام کی جانب سے اس مسئلے پر بات چیت نہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ بہت پہلے ہی کرلیا تھا۔
یورپ کے دو بڑے ممالک - روس اور فرانس کی حکومتوں نے روس اور امریکہ دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ چھ ماہ کی مدت کا فائدہ اٹھائیں اور معاہدے کو برقرار رکھنے پر بات چیت کریں۔