دس عرب اور خلیجی ملکوں نے شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم 'دولتِ اسلامیہ' کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر "مشترکہ فوجی مہم" شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس کےبعد چھ خلیجی ملکوں اور مصر، عراق، اردن اور لبنان کے وزرائے خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 'دولتِ اسلامیہ' سمیت تمام دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے متحد اور امریکہ کے ساتھ ہیں۔
جن خلیجی ممالک نے شدت پسند تنظیم کے خلاف امریکہ کی قیادت میں فوجی مہم کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کی ہے ان میں اجلاس کے میزبان سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، عمان اور قطر شامل ہیں۔
یہ تمام ممالک علاقائی تنظیم 'خلیج تعاون کونسل' کے رکن ہیں اور خطے میں امریکہ کے قریبی اتحادی تصور کیے جاتے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کے اہم ترین غیر عرب مسلم ملک ترکی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
تاہم اجلاس میں ایران اور شام کی نمائندگی نہیں تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم مشرقِ وسطیٰ میں شدت پسندوں کے خلاف کسی وسیع تر اتحاد کا قیام امریکہ کے لیے کتنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
اجلاس کے بعد تمام 10 عرب ملکوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کئی ایسے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کا اعلان گزشتہ روز صدر براک اوباما نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی حکمتِ عملی سے متعلق اپنے پالیسی بیان میں کیا تھا۔
اعلامیے میں عرب ملکوں نے غیر ملکی جنگجووں کا راستہ روکنا، دولتِ اسلامیہ کو مالی وسائل کی فراہمی کا سدِ باب، شدت پسندوں کی کارروائیوں سے متاثرہ افراد تک امداد پہنچانا اور شدت پسندوں کے "قابلِ نفرت " نظریات کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
اجلاس میں شریک ملکوں نے عراق میں نئی حکومت کے قیام اور اس کی جانب سے تمام عراقیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے اعلان کا خیر مقدم بھی کیا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں عرب ملکوں کو فوجی اور دیگر امداد کی فراہمی اور شدت پسندوں کو غیر قانونی رقوم کی منتقلی روک کر مرکزی کردار ادا کرنا ہے۔