صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ جنوب مغربی شام میں جو عارضی جنگ بندی ہونے جارہی ہے وہ ملک بھر میں حتمی امن کے حصول کی طرف "اہم قدم" ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے ہفتہ کو کہا کہ " مقامی وقت کے مطابق کل دوپہر کو جنگ بندی زون کا قیام موثر ہونا شروع ہو جائے گا۔"
میک ماسٹر نے کہا کہ عارضی جنگ بندی کا ہونا امریکہ کی "ایک ترجیح" ہے اور انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو "اس سمجھوتے کے لیے ہونے والی پیش رفت پر اطمینان ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "امریکہ (داعش) کو شکست دینے، شام میں لڑائی کو ختم کرنے، لوگوں کو درپیش مشکلات کو کم کرنے اور ان کی (اپنے) گھروں واپسی کو قابل بنانے کے عزم پر قائم ہے۔ یہ سمجھوتہ ان مقاصد کے حصول کی طرف ایک اہم قدم ہے۔"
عارضی جنگ بندی زون قائم کرنے کے فیصلے کا اعلان جمعہ کو جرمنی کے شہر ہمبرگ میں جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوا اور اس میں امریکہ، روس اور اردن بھی شامل ہیں۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ عارضی جنگ بندی کی نگرانی روسی فوج کی پولیس "اردن اور امریکہ کے (اہلکاروں کے) تعاون کے ساتھ کرے گی۔"
روسی صدر ولادیمر پوٹن نے ہفتہ کو ہیمبرگ میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ عارضی جنگ بندی کا یہ سمجھوتہ امریکہ کے موقف میں تبدیلی اور وہاں کی صورت حال سے متعلق حقیقت پسندی کے نتیجہ میں سامنے آیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ یہ سمجھوتہ "ہمارے لیے اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ اور روس شام میں مل کر کام سکتے ہیں۔"
اس عارضی جنگ بندی کے سمجھوتے کا اطلاق شام کے جنوب مغرب میں اردن کی سرحد کے قریب واقع درعا، سویداء اور قنیطرہ کے صوبوں پر ہو گا۔
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے عارضی جنگ بندی شروع ہونے سے ایک دن پہلے کہا کہ جن علاقوں میں اس کا اطلاق ہونا ہے وہ عام طور پر پرسکون ہیں سوائے شامی فورسز کی طرف سے درعا کے علاقے میں واقع دو دیہاتوں پر شامی فورسز کی طرف سے کبھی کبھی گولہ باری کی جاتی ہے۔
ماضی میں باغی فورسز اور سرکاری فورسز کے درمیان طے پانے والے عارضی جنگ بندی کے اسی طرح کے سمجھوتوں پر عمل درآمد نا ہونے کی وجہ سے یہ ختم ہو گئے تھے۔