امریکہ کی ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے دو سینیٹرز نے جمعرات کے روز ایک مشترکہ بل پیش کیا جس میں اسرائیل کے لیے تین ارب 30 کروڑ ڈالر سالانہ امداد کو قانونی شکل دینے کے لیے کہا گیا ہے۔
سن 2016 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اس امداد سے متعلق ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اسرائیل کو اپنی حفاظت کے لیے مدد فراہم کرنا تھا۔
ری پبلیکن سینیٹر مارکو روبیو اور ڈیموکریٹ سینیٹر کرس کونز نے یہ بل مشترکہ طور پر پیش کیا ہے، تاکہ ایک سال سے التوا میں پڑے ہوئے اس اقدام کو قانونی شکل دی جا سکے۔
اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے کی وجہ مشرق وسطیٰ کی تازہ ترین صورت حال ہے۔ ایک امریکی ڈرون حملے میں عراق میں ایرانی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اس کے جواب میں عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی راکٹ حملوں کے بعد خطے کی صورت حال مزید کشیدہ ہو گئی ہے، جسے اسرائیل اپنے لیے خطرہ خیال کرتا ہے۔
جمعرات کے روز صورت حال میں اس وقت مزید بگاڑ آیا جب ایران نے صدر ٹرمپ کی جانب سے نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کی دعوت مسترد کر دی اور اس کے فوجی کمانڈروں نے امریکی فوجی ٹھکانوں پر مزید حملے کرنے کی دھمکی دی۔
اس بل کے ذریعے چار سال قبل صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی مفاہمت کی ایک یادداشت کو قانون کا درجہ مل جائے گا جسے امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑی فوجی امداد کے طور پر دیکھا جائے گا۔