امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل جوزف ووٹیل کہتے ہیں کہ وہ اسلامی دہشت گرد تنظیم داعش کے دوبارہ مضبوط اور متحد ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں چاہے یہ شام یا عراق میں ہو یا پھر افغانستان میں ۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ریٹائرڈ جنرل ووٹیل کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں داعش خراساں کے خطرے سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔ ’’ان دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی ایک چیز تو ہے نہیں اس لیے ہمیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان پر دباؤ جاری رکھنا چاہئیے چاہے یہ شام اور عراق میں ہوں یا افغانستان میں‘‘۔
امریکی فوج کے سابق کمانڈر کا، جو افغانستان میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، کہنا تھا کہ داعش خراساں ایک خطرہ ہے کیونکہ یہ لوگ ایسے دیہاتی علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں قانون کی عملداری نہ ہو اور کمیونٹیز محرومی کا شکار ہوں۔ اس لیے عالمی برادری کو اس پر توجہ برقرار دینی چاہئیے۔
گزشتہ روز امریکی وزارت خارجہ نے داعش کی شکست کے لیے بنائے جانے والے اتحاد ’’داعش کو شکست دینے کیلئے عالمی اتحاد‘‘ کے نمائندوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بھی زور دیا کہ داعش کا خطرہ ابھی موجود ہے جس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان قیادت اور عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ افغان مسئلے کو حل کیا جائے۔ ’’جیسے ہی صدارتی انتخابات کا معاملہ نمٹتا ہے اس کے بعد تمام فریقین یعنی عالمی برادری، طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مذاکرات کے لیے اچھا موقع ہو گا۔ میں پر امید ہوں کیونکہ یہ سب کے بہتریں مفاد میں ہے ‘‘۔
جنرل ووٹیل رواں برس مارچ میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے شام اور عراق میں داعش کے خلاف فوجی آپریشنز کی نگرانی کی۔
مشرق وسطیٰ میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور امریکہ کی خطے میں کم ہوتی دلچسپی کے بارے میں جنرل ووٹیل کہتے ہیں کہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ خطے کے معاملات میں عمل دخل جاری رکھے اور وہاں موجود رہے۔ بقول ان کے یہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ دہشت گرد امریکی مفادات پر حملے نہ کر سکیں ۔ ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم کردوں کو چھوڑ رہے ہیں اور ایسے علاقوں میں عدم استحکام کی فضا پیدا کر رہے ہیں جو پہلے مستحکم تھے۔ میرے لیے یہ باعث تشویش ہے ۔‘‘
گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ کی جانب سے شام سے امریکی افواج کو نکالنے کے اعلان کے بعد امریکہ کی شام اور مشرق وسطیٰ میں پالیسی کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔