چار جولائی کو بین البراعظمی میزائل تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے راہنماؤں نے جمعے کے روز اقوام متحدہ پر زور دیا کہ شمالی کوریا کے خلاف تعزیرات پر عمل درآمد کو تیز کیا جائے۔
تین رہنماؤں نے بین الاقوامی برادری سے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر فوری عمل درآمد کرائے جس کا مقصد شمالی کوریا کو سزا دینا ہے۔
یہ بات اُس تحریری بیان میں کہی گئی ہے جو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جنوبی کوریا کے صدر مون جائے اِن اور جاپانی وزیر اعظم شِنزو آبے نے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں جی 20 سربراہ اجلاس کے دوران ہونے والی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا۔
تحریری بیان کے مطابق، سربراہان نے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور شمالی کوریا کے ہمسایہ ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ شمالی کوریا کو باور کرائیں کہ وہ دیگر ملکوں کو دھمکیاں دینے سے باز رہے اور اپنے بیلاسٹک میزائل پروگرام کو ترک کرے۔
ملاقات سے دو روز قبل، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نِکی ہیلی نے متنبہ کیا کہ شمالی کوریا کے میزائل تجربات ’’سفارتی حل کے امکان کو فوری طور پر بند کرنے کا سبب بنتے ہیں‘‘، اور کہا کہ امریکہ ’’آئندہ دِنوں کے دوران‘‘ نئی امریکی تعزیرات پر مشتمل تجاویز پیش کرے گا۔
امریکی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ زیر غور نئی تعزیرات میں، شمالی کوریا کے فوجی اور ہتھیاروں کے پروگرام پر قدغن لگانا، شمالی کوریا کی جانب سے فضائی اور آبی ذرائع سے پرواز پر کنٹرول کو سخت کرنے کے اقدامات، بین الاقوامی مطالبات کی انحرافی پر شمالی کوریا کے کم جونگ اُن کے اعلیٰ اہل کاروں کا احتساب کرنا شامل ہے، تاکہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو تشکیل دینے سے باز آئے۔
مزید برآں، ہیلی نے کہا کہ امریکہ اُن ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے پر تیار ہے جو شمالی کوریا کے ساتھ تجارت پر پابندی کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
منگل کے روز شمالی کوریا نے اپنے پہلے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا، جو ’’ری انٹری وہیکل‘‘ کی استعداد کا حامل ہے، جس صلاحیت کی بدولت اُسے جوہری ہتھیاروں سے لیس کیا جاسکے گا۔
امریکی فوجی حکام کے اندازے کے مطابق، میزائل کی رینج 5500 کلومیٹر ہے، جس سے یہ امریکہ کے شمال مغربی حصوں کو ہدف بنا سکتا ہے، جہاں اب شمالی کوریا کی پہنچ ممکن ہوچکی ہیں۔