اسلام آباد —
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2013ء کے دوران 1025 عام شہری جب کہ سکیورٹی فورسز کے 475 اہلکار دہشت گرد حملوں میں مارے گئے۔
دہشت گردی کے واقعات سے متعلق 2013ء کی سالانہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروپ بدستور پاکستان اور امریکہ کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گرد گروپ پاکستانی حکومت، فوج اور شہریوں پر حملوں کے علاوہ پولیس اسٹیشنز، عدالتی مراکز، سرحدی چوکیوں اور انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں کے علاوہ فرقہ وارانہ واقعات میں بھی ملوث رہے۔
سال 2013ء کے لیے اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، پنجابی طالبان اور لشکر جھنگوی سے مسلسل نبرد آزما ہے جو پولیس، سکیورٹی فورسز پر حملوں یا فرقہ وارانہ تشدد اور معاشرے کے تمام طبقوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو اپنے متبادل نام سے مالی وسائل اکٹھے کرنے میں مصروف ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ یہ گروپ تشدد کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2013ء میں انسداد دہشت گردی سے متعلق منظور کرائے گئے قوانین کے نفاذ کے لیے حکومت مصروف ہے۔
دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے مالی وسائل اکٹھے کرنے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی ایسی تنظیمیں جن پر عالمی تعزیرات عائد ہیں وہ بھی نام بدل پر فنڈز اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مئی 2013ء میں عام انتخابات کے دوران بھی دہشت گردوں نے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور اُمیدواروں کو نشانہ بنایا۔
متحدہ قومی موومنٹ سینیٹر طاہر مشہدی کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
’’دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیئے۔۔۔۔ القاعدہ اور اس سے ملحقہ تمام گروپوں کو ہر صورت تباہ ہونا چاہیئے ورنہ اُن کی باقیات رہ جائیں گی جو پھر سر اُٹھائیں گے۔‘‘
قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے چیئرمین چوہدری بشیر محمود ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں کی کامیابی کے لیے عوام کو بھی ریاستی اداروں سے بھرپور تعاون کرنا ہوگا۔
’’ان عناصر کی سرکوبی کے لیے تمام فریقوں کو اور عوام کو متفقہ طور پر (ایک حکمت عملی) پر عمل کرنا ہو گا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہو گا۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
دہشت گردی کے واقعات سے متعلق 2013ء کی سالانہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروپ بدستور پاکستان اور امریکہ کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گرد گروپ پاکستانی حکومت، فوج اور شہریوں پر حملوں کے علاوہ پولیس اسٹیشنز، عدالتی مراکز، سرحدی چوکیوں اور انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں کے علاوہ فرقہ وارانہ واقعات میں بھی ملوث رہے۔
سال 2013ء کے لیے اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، پنجابی طالبان اور لشکر جھنگوی سے مسلسل نبرد آزما ہے جو پولیس، سکیورٹی فورسز پر حملوں یا فرقہ وارانہ تشدد اور معاشرے کے تمام طبقوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو اپنے متبادل نام سے مالی وسائل اکٹھے کرنے میں مصروف ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ یہ گروپ تشدد کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2013ء میں انسداد دہشت گردی سے متعلق منظور کرائے گئے قوانین کے نفاذ کے لیے حکومت مصروف ہے۔
دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے مالی وسائل اکٹھے کرنے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی ایسی تنظیمیں جن پر عالمی تعزیرات عائد ہیں وہ بھی نام بدل پر فنڈز اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مئی 2013ء میں عام انتخابات کے دوران بھی دہشت گردوں نے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور اُمیدواروں کو نشانہ بنایا۔
متحدہ قومی موومنٹ سینیٹر طاہر مشہدی کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
’’دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیئے۔۔۔۔ القاعدہ اور اس سے ملحقہ تمام گروپوں کو ہر صورت تباہ ہونا چاہیئے ورنہ اُن کی باقیات رہ جائیں گی جو پھر سر اُٹھائیں گے۔‘‘
قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے چیئرمین چوہدری بشیر محمود ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں کی کامیابی کے لیے عوام کو بھی ریاستی اداروں سے بھرپور تعاون کرنا ہوگا۔
’’ان عناصر کی سرکوبی کے لیے تمام فریقوں کو اور عوام کو متفقہ طور پر (ایک حکمت عملی) پر عمل کرنا ہو گا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہو گا۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔